Wednesday, February 13, 2013

تمہیں کون سا پیکیج چاہیے؟


عبد اللہ حفیظ


پاکستان میں بسنے والے پڑھے لکھے طبقے، یعنی اس طبقے جس سے کسی مثبت پیش رفت، اچھی تبدیلی اور قوم کی حالت سنوارنے کی توقع کی جاتی ہے، کی نفسیات کو سمجھنا ہو تو کسی بھی طالبعلم کی کالج سے یونیورسٹی اور پھر وہاں سے عملی زندگی کی کہانی دیکھی جا سکتی ہے۔ اپنی پڑھائی کے دنوں میں  اور پھر اس کے بعد ان گنت نوجوانوں کو قریب سے دیکھا، ان سے بات چیت ہوئی، سب کی کہانی تقریباً ایک سی ہے۔ کہانی کا آغاز کالج میں داخلہ لینے سے ہوتا ہے۔ انٹر میڈیٹ کے کسی طالب علم سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ پڑھ کر کیا کریں گے تو اس کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر، انجینیر۔۔۔۔ بن کر قوم کی خدمت کروں گا، پاکستان کا وقار بلند کروں گا۔۔۔۔وغیرہ، وغیرہ۔ یہی نوجوان جب سخت محنت کے بعد کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں پہنچتا ہے تو اسے جذبۂ  پروفیشنلزم سے تعارف حاصل ہوتا ہے۔ پہلے ایک دو سال وہ اس جذبے کو پختہ کرنے اور یونیورسٹی کے ماحول کے مطابق خود کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے یعنی لباس و لہجہ درست کرنے میں گزار دیتا ہے۔ اس کے بعد تھوڑی مزید ترقی ہوتی ہے اور یہ طالبعلم کنٹین پر بیٹھ کر ملکی و عالمی صورتحال پر سیر حاصل تجزیہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس پر ماضی کی ناکامیوں اور اب مستقبل میں اسے کامیابیوں سے بدلنے کے جذبات حاوی ہوتے ہیں۔ اور وہ بڑی گرمجوشی سے  اپنے جونئیرز کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی پڑھائی کا آخری سال شروع ہوتا ہے، صورتحال بالکل بدل جاتی ہے۔ یہ نوجوان جذبات کے دائرے سے باہر آکر سوچنا شروع کرتا ہے، اسے اپنی گذشتہ شب بیداری، یونیورسٹی کی بھاری فیسوں کی ادائیگی، والدین کی امیدیں سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ وہ اپنا آخری سال پوری لگن سے پڑھائی میں لگانے کی کوشش کرتا ہے اور اس دوران اچھی ملازمت، کوئی ملٹی نیشنل  کمپنی مل جاۓ تو زیادہ اچھا ہے، یا امریکا و یورپ کے سکالر شپ کی تلاش میں انٹرنیٹ  براؤزنگ کو بھی مستقل وقت دیتا ہے۔ یونیورسٹی کے آخری دو تین ماہ بڑے ہی عجیب گذرتے ہیں۔ چار پانچ سال سے اکٹھے اٹھنے بیٹھنے اور قوم کی حالت سنوارنے کے لیے کمر بستہ نوجوان ایک دوسرے سے چھپ کر نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں امیدواران کی زیادتی کی وجہ سے نوکری ہاتھ سے نکل نہ جاۓ۔ کیونکہ پڑھائی جتنی بھی اچھی ہو ملک میں نوکریاں انتہائی محدود ہوتی ہیں۔ ملازمتوں کے اشتہار ایک دوسرے سے چھپاۓ جاتے ہیں، یہاں تک کہ اخبار سٹینڈ پر سے صفحے غائب ہونے لگتے ہیں۔ نوکری کی تلاش اس قدر ذہنوں پر حاوی ہو جاتی ہےکہ باقی ہر غم بھول جاتا ہے۔ اب کچھ آگے چل کر جن لوگوں کو نوکری مل جاتی ہے وہ تو احباب کے سامنے کمپنی کی تعریفیں اور جاب کی لذتیں بیان کرتے رہتے ہیں اور جو بے روزگار ہوتے ہیں وہ ایک ہی دن میں ملک میں انقلاب برپا کر دینے، مظلوموں کی دادرسی اور ظالم و جابر حکمرانوں کو تختۂ دار پر لٹکانے جیسی غصے سے پُر تقریریں کر رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے سال بعد جب تمام لوگ کسی نہ کسی جگہ ایڈجسٹ ہو چکے ہوتے ہیں اس وقت اگر آپ ان سے ملیں تو ان کی ترجیح زیادہ کمانے، شادی کرنے، اہم سرٹیفیکیشنز حاصل کرنے اور اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ رہ گئیں تبدیلی و انقلاب کی باتیں تو اس میں سے اب صرف حکمرانوں،  جرنیلوں اور نظام کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا ہوتا۔ کیونکہ اس کی نظر میں اس کی دنیا تو بس چکی ہوتی ہے۔
یہ ہے پاکستان کے باصلاحیت طبقے کا لائف سائیکل! ملک کی ابتر صورتحال اور اس میں بسنے والے غریب خاندانوں کی دوہری کمریں دیکھ کر دل میں آتا ہے کہ کاش کوئی ایسا مژدہ سامنے آۓ جو اس طبقے کو ذات کے حصار سے باہر کھینچ لاۓ۔ پاکستان اگر کافی نہیں تو کاش دنیا بھر میں کٹتے گرتے مسلمانوں کے جسم ان کو جھنجھوڑ پائیں۔ کاش فلسطین، عراق ، افغانستان کے کسی شہید کے خون کے چھینٹے اس کی آنکھوں کو نیند سے جگا دیں۔ کاش یہ لوگ عرب انقلابات اور ان میں بلند ہونے والے نعروں سے جاگ جائیں۔جاگ جانےاور مظلوم امت کے لیے کچھ کرنے کی وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن کاش۔۔۔۔ کہ کوئی اٹھ جاۓ۔ شام میں بشار الاسد نصیری کے ظلم کے خلاف گردنیں کٹواتے مسلمان یاد آگئے۔ شام میں جب حکومت کے خلاف لوگ نکلنا شروع ہوۓ تو بہت سے لوگ سڑک کے کنارے کھڑے مظاہرین کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔ مظاہرین انہیں مخاطب کر کے نعرہ لگاتے کہ ’’ ہمارے ساتھ آ ملنے کے لیے تم اور کتنے لوگوں کا خون چاہتے ہو؟‘‘ میں بھی آج یہی سوال کرتا ہوں کہ بتاؤ امّتِ مسلمہ کا دکھ بانٹنے اور ان کے لیے کھڑے ہونے کے لیے تمہاری کیا ’’ڈیمانڈ‘‘ ہے؟ تمہیں کیا ‘‘پیکج’’ چاہیے؟  

---------------------

Sunday, February 03, 2013

سکھر جیل سے ایک مجاہد کا خط


( ذیل میں خط کے متن کے ساتھ،  اصل صفحات بھی دیے جارہے ہیں) 

بسم رب الشہداء ِو المجاہدین
محافظین ناموس  اسلام ، ہمارے دلوں کے ترجمان
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ؛
سلام مسنون کے بعد ، ہمیں معلوم ہے کہ آپ حضرات ہمہ وقت دشمنانِ اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور امید واثق ہے  کہ آپ حضرات  امت مسلمہ کے لیے عموماً  اور ہم جیسے پابند سلاسل مجاہدین کے لیے خصوصاً  ہر وقت کوشاں ہوں گے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ جیسے سر فرشانِ اسلام  کے وسیلہ سے عالم اسلام کے تمام قیدی بھائیوں کو آزادی نصیب فرمائے(آمین)۔
جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے  کہ کراچی سنٹرل جیل سے تقریباً 80 مجاہد ساتھیوں کو حیدر آباد اور سکھر  کی جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ سکھر جیل  میں ہمارے ساتھ جو سلوک ہوا، تاریخ میں اس کی نظیر  بہت کم ملتی ہے۔ شاید ہی  پاکستان کی تاریخ میں ایسی بربریت کسی نے دیکھی ہوگی اور نہ ہی سہی ہوگی۔ (نوٹ: ٹارچرسیل  میں تو بہت ظلم ہوتا ہے ، لیکن جیل  میں ایسا نہیں ہوتا۔)
ہم نے اسلام کی خاطر دنیا کی عیش و عشرت، اس ملک میں اسلامی نظام  کی خاطر اپنے گھر بار  کو چھوڑا ، ہم نے جہاد کا راستہ اپنایا، ہمارا مقصد صرف اور صرف رضائے الہٰی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اخلاص نصیب فرمائیں اور ہماری قربانیوں کو قبول فرمائیں۔ یہ خط لکھنے کا مقصداس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ کو مجاہدین قیدیوں  کے حالات کا علم ہوجائےاور مجاہدین  پر جو ظلم ہواہے، اگر ہوسکے تو ان ظالموں سے اِ س ظلم کا انتقام لیا جائے۔ 27 رمضان المبارک کا مبارک دن تھا۔ تمام ساتھی روزے سے تھے  اور ہمیں سنٹرل جیل کراچی سے سنٹرل  جیل سکھر منتقل کیا جارہا تھا۔ کراچی سے ہی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں  بیڑیاں پہنادی گئیں، تقریباً 8 سے 10 گھنٹے کے جان لیوا سفر کے بعد جب ہماری گاڑی سکھر سنٹرل جیل پہنچی تو ایک  ایک ساتھی کا نام پکارا جاتا اور جیسے ہی اندر داخل ہوتا، آنکھوں پر پٹی باندھ  دی جاتی، کپڑے پھاڑ کر مکمل برہنہ کردیاجاتا اور اس کے  بعد لاتوں ، مکوں اور لاٹھیوں کی بارش شروع ہوجاتی اور پھر لٹا کر اتنے چھتر مارے جاتے  کہ تمام جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا۔پھر ان ظالموں  نے تمام  مجاہدین کو برہنہ حالت  میں پوری جیل میں گھمایا۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، آنکھوں پر پٹی اورجسم پر کوئی کپڑا موجود نہیں۔ آپ اندازہ لگائیے کہ ہماری کیا حالت ہوگی۔ ان ظالموں کے دلوں میں   اللہ تعالیٰ کا  ذرہ برابر بھی خوف  نہیں ، مانتے ہیں کہ ہم  اس وقت بے بس ہیں، لیکن الحمد للہ لاوارث نہیں ہیں، ہمارے پیچھے ، ہمارا انتقام لینے والے  ابھی تک اس دھرتی پر موجودہیں۔ یہاں تک کہ ہمارا ایک معذور ساتھی جس کی ایک ٹانگ شہید ہوچکی ہے ، اس سے مصنوعی ٹانگ  اور لاٹھی چھین لی گئی اور اس  کو اسی حالت  میں پوری جیل  میں گھمایا گیا ۔ وہ بے چارہ گرتا رہا اور یہ ظالم  اس کو اُٹھاتے رہے  اور مار ما ر کر پوری جیل میں گھماتے رہے  اور ایسے غلیظ الفاظ استعمال کرتے رہے  جن کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔  ان ظالموں  نے صرف اس پر بس نہیں کیا ۔ اس کے بعد تین تین مجاہدین کو ایک کمرے  میں بند کیا ۔ ان کو جسم ڈھاپنے کے لیے کوئی کپڑا نہیں دیا، جبکہ تمام مجاہدین روزے سے تھے۔  ان مرتدین  نے زبردستی پانی پلانے کی کوشش کی، لیکن الحمد للہ کسی بھی ساتھی کے قدم نہیں ڈگمگائے اور کسی نےبھی روزہ افطار  نہیں کیا ۔

Friday, January 18, 2013

نصابِ حکمرانی


تحریر:عبد اللہ حفیظ
ڈگری،  ڈگری ہوتی ہے۔۔۔۔ جعلی ہو یا اصلی۔ کیونکہ جیسا نظامِ حکومت اور جس طرح کے حکمران ہمارے ہاں چلے آرہے ہیں اس کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں سے ملنے والی ڈگریاں تو ابھی تک کام آتی نہیں دیکھی گئیں۔ ان پڑھ سے ان پڑھ سیاستدان بھی ہوں یا سویلین، یا پھر  اخلاق سے قطعی محروم بوٹ، آج تک امورِ مملکت چلانے کے لیے انہیں کسی پروفیسر سے ٹیویشن پڑھنی نہیں پڑی، سواۓ  انگریزی بہتر بنانے کے لیے تھوڑی مشق کے۔ یہ بات اس لیے کہہ دی کہ ابھی تک جتنے بھی حکمران نظر آۓ،زیادہ  پڑھے لکھے بھٹو اور شوکت عزیز ہوں یا بڑی ڈگری سے محروم زرداری و نواز شریف یا پھر انٹرمیڈیٹ میں ماٹھے سے نمبر لے کر کاکول میں بوٹ زمین پر مارنے کی مشق کرنے والے جرنیل، سب کے دورِ اقتدار ہمارے سامنے ہیں۔ نہ تو بھٹو کی فی البدیہہ تقریریں کچھ کارگر نظر آتی ہیں اور نہ ہی امپورٹڈ شوکت عزیز کی معاشی میدان میں مہارتوں سے ملکی معیشت مستحکم ہو گئی۔ دوسری طرف زرداری جیسا بغیر کسی مشکل کے اتنے عرصے سے اپوزیشن اور قوم دونوں کو جھانسا دے رہا ہے اور نواز شریف بھی دو دفعہ اپنی صلاحیت کے جوہر دکھا لینے کے بعد پھر سے اپنی جگہ بنانے میں لگا ہے۔ اور جرنیل تو قومی سلامتی کے ایشو کو جس مہارت سے کیش کروا رہے ہیں اس پر بڑی بڑی سیاست والے بھی دنگ ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر انسان سوچنے لگتا ہے کہ بھائی امور مملکت چلانا تو بہت بڑی ذمہ داری ہے، دفاع، معیشت، خارجہ پالیسی، تعلیم، صنعت۔۔۔ کیسے کیسے مشکل امور پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ پرانے زمانوں میں تو چلیں اٹھان ہی اس طرز پر ہوتی تھی کہ سترہ سالہ محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہو جاتا تھا، غزنوی، غوری، ابدالی سب کے گرد ماحول اور اساتذہ ایسے ہوتے تھے جو ان کو جہاں بانی اور جہاں گیری کے لیے تیار کرتے تھے۔ لیکن اب تو ہم اس تہذیب سے دستبردار ہو کر مغرب کا نظام اپناۓ ہوۓ ہیں جس کی پیچیدگیاں اس قدر ہیں کہ بندے کو پڑھنا پڑ ہی جاتا ہے۔ پھر معاملہ کیا ہے؟ ہمارے حکمرانوں کے پاس کون سی کنجی ہے جو پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر ایک کو اقتدار کا ایک سا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس بات کا جواب امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہنے والے حسین حقانی کی امریکی اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتوں کی داستانوں سے مل گیا  جو ’’اوباماز وارز
(Obama’s Wars)‘‘ میں چھپیں۔ انتہائی پڑھے لکھے  موصوف امریکی عہدے داروں کو کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی مثال قالین فروش کی سی ہے جو پہلے پہل قالین کی قیمت بہت زیادہ بتاتا ہے لیکن پھر بہت کم قیمت پر اسے بیچ دیتا ہے اور پاکستانیوں کی مثال اس عورت کی سی ہے جس سے کچھ حاصل کرنے کے لیے مرد کو اسے کچھ دینا پڑتا ہے۔ اب بتائیں اگر ایسے ہی حکومت ہوتی ہے اور یہی ہماری اپروچ ہے تو پھر ڈگری جعلی ہو یا اصلی، کیا فرق پڑتا ہے؟ جب حکمران فیصلہ ہی یہ کرکے بیٹھے ہیں کہ ہمیں مانگ کر کھانا ہے تو پھر ضرورت تو مانگنے کے فن میں مہارت کی ہے، جب ان لوگوں نے فیصلہ ہی یہ کر رکھا ہے کہ دورِ اقتدار کو لمبا کرنے کے لیے امریکی اشیرباد حاصل کرنی ہے تو پھر سیکھنے والا فن تو چاپلوسی کا ہے، اگر ہر حکمران کرسی سنبھالتے ہی دستخط کر دے کہ تمام ملکی امور امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پائیں گے تو پھر ضرورت تو قوم کو اندھا رکھنے کے لیے جھوٹ بھولنے کا ہنر سیکھنے کی ہے۔۔۔۔ یہ سارے فنون وہ ہیں جن میں ہمارے تمام گذشتہ حکمران طاق رہے ہیں۔
ہاں مسئلہ قوم کا رہ جاتا ہے۔ کیا قوم بھی انہی لوگوں اور اسی طرزِ حکومت کو پسند کرتی ہے یا صحیح معنوں میں آزادی چاہتی ہے۔ میرے خیال میں قوم تو آزادی چاہتی ہے لیکن اس کی قیمت ادا کرنے کی ہمت نہیں پا رہی۔ کوئی ہے جو قوم کو یہ یقین دلائے کہ اگر وہ کھڑی ہو جاۓ تو ان شاء اللہ آزادی پانے کے لیے اس سے بہت کم قربانی دینا پڑے گی جتنی وہ آج دے رہی ہے؟

Tuesday, January 15, 2013

نیا آرمی ڈاکٹرائن اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت


تحریر: منصور فاتح
پاکستان آرمی کی طرف سے نئے ڈاکٹرائن کی اشاعت کے تین روز بعد ہی کشمیر سے ملحقہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی طرف سے نئی چوکیوں کی تعمیر کے تنازعہ پر دو طرفہ فائرنگ اور اس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے دو دو فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پاکستان آرمی کی نئی حکمتِ عملی اور خطے کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم ترین سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نیا آرمی ڈاکٹرائن اپنی اشاعت کے ساتھ ہی ناکام ہو گیا؟ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی آرمی اپنے ملک میں جاری نفاذِ شریعت کی تحریک کو کچلنا اپنا مقصدِ اصلی قرار دے چکی ہے، بھارتی فوج کی طرف سے ایسے اقدامات کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ تیسرا اہم سوال مسلمانانِ پاکستان کے لیے یہ ہے کہ ان حالات کے تناظر میں ہمیں پاکستان کے مستقبل کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو بھارتی فوج کے حالیہ اقدامات اور پھر بھارتی فضائیہ کے چیف این اے کے برونی کی 'دوسرے آپشنز' استعمال کرنے کی دھمکی نے آرمی ڈاکٹرائن کو ناکام نہیں کیا بلکہ پہلے سے ناکام اس ڈاکٹرائن میں موجود بہت بڑے سَقَم اور کمزوری کو صاف ظاہر کیا ہے۔ یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ذہنوں میں رچی بسی پاکستان دشمنی کو ڈھول کی تھاپ پر تھر تھرانے والے ثقافتی طائفے، فلمی اداکار اور امن کی آشا جیسی میڈیا مہمات ختم نہیں کر سکتی۔ نہ ہی امریکی اشاروں پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی سیاسی قیادتیں دشمنی کے پینسٹھ بلکہ صحیح معنی میں تیرہ سو  سالہ نقوش مٹا سکتی ہیں اور نہ ہی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے،امریکی احکامات پر گردن جھکانے والے فوجی جرنیلوں کی تبدیلیٔ پالیسی سے مسلمانوں کے خلاف ہندو بغض ختم ہو سکتا ہے   اور پھر پانی اور کشمیر جیسے نا گزیر مسائل کے ہوتے ہوۓ دوستی کا مطلب ہی کیا؟ ان سب وجوہات کو پسِ پشت ڈالتے ہوۓ قرآن پر ایمان رکھنے والے بندۂ مومن کے لیے تو صرف اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا )) یقیناً تم ایمان والوں کا سب سے بڑا دشمن یہودیوں اور مشرکین کو پاؤ گے (مائدۃ:۸۲)( اور اسی طرح بھارت کے ساتھ دوستی کے بعد نبیﷺ کی زبانِ اطہر سے غزوۂ ہند میں شریک مجاہدین کے لیے آگ سے آزادی کی بشارت چہ معنی دارد؟ ان سب وجوہات کو سامنے رکھتے ہوۓ اگر کوئی فوج بھارت کی بجاۓ طالبان کو اصل چیلنج قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تنخواہ دار ملازمین کی بجاۓ ایسے مجاہدین کو ہندو مشرکین کے خلاف صف آرا کرنے کی ہے جن کا موٹو حقیقت میں ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہو۔

Thursday, January 10, 2013

آرمی ڈاکٹرائن میں گذشتہ تبدیلی کاحالیہ اعلان


تحریر: منصور فاتح
چند سطروں کے اضافے کے ساتھ
قومی سلامتی، قومی تحفظ اور قومی مفاد ایسے ایشوز ہیں جن کوکسی بھی قوم میں موجود داخلی انتشار کے خاتمے اوروحدتِ فکر پیدا کرنے کے لیےبھی  استعمال کیا جاتا رہاہے اور اسے کسی متفقہ دشمن کے خلاف تیاری یا تیز رفتار صنعتی و معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بنایا جاتا رہا۔ یورپ کی فاشسٹ حکومتوں میں یہ پہلو بہت ہی نمایاں رہا۔ لیکن اس کے برخلاف ان ایشوز کو استعمال کرنے کی ایک مثال وہ ہے جو پاکستان میں فوج کے ادارے نے قائم کی۔ پاکستان کے فوجی حلقوں کی جانب سے یہ اصطلاحات مسلسل پینسٹھ سال سے استعمال کی جارہی ہیں لیکن اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ فوج نے قوم کے سامنے ان اصطلاحات کا استعمال کر کے جو مقاصد پورے کیے وہ قوم کے مفاد میں نہیں بلکہ خود اس ادارے اور اس کے سرکردہ افسران کے حق میں تھے۔
 فوج نے شروع روز ہی سے مشرقی سرحد کو پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف خطرہ قرار دیا اور  مکار ہندو بنیے کے خلاف جہاد،    مشرقی سرحد کی حفاظت اور کشمیر کی آزادی کو اپنے آرمی ڈاکٹرائن کی بنیاد بنا لیا۔ یہ مسائل یقیناً ایسے ہی ہیں جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے لیکن اعتراض اس چیز پر ہے کہ پینسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی یہ مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ اب تو بھارت دفاعی و معاشی لحاظ سے اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجا تو پاکستانی فوج کا سپہ سالار قوم سے صرف یہی کہ سکے گا کہ"جب طوفان چل رہا ہو تو سر نیچے کر لینا چاہیے کہیں سر ہی نہ اُڑ جاۓ"۔ دوسری طرف اس ایشو کو استعمال کرتے ہوۓ فوج پاکستان کا سب سے امیر اور با اثر ادارہ بن گئی ہے۔ قوم کی ستر فیصد آمدن، ۴۲۲ارب روپے سالانہ، اس کے پیٹ میں جا رہی ہے۔ اس آمدنی کے سر پر آج فوج پاکستان کی سب سے بڑی کارپوریشن کا روپ دھار چکی ہے جس کی ملکیت میں فوجی و عسکری گروپ جیسے  آٹھ بڑے منافع بخش ادارے ہیں اور فوجی افسران پاکستان کا طاقتور ترین طبقہ ہیں۔ملک کی کوئی بھی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہیں ہو پاتی۔

Wednesday, January 09, 2013

اپنی قیادت کو پہچانیں

تحریر: عبد اللہ حفیظ
 ‘‘مسلمانوں کے ہوش مند ہراول دستے کو چاہیے کہ حرکت میں آئیں اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جاۓ۔ ان کو چاہیے کہ حرکت میں آئیں اس سے قبل کہ ہم کل قاہرہ اور ریاض میں بھی پیٹریاس کو قتلِ عام اور عزتوں کی پامالی کے لیے ’امن کونسلوں‘ کی قیادت کرتے ہوۓ دیکھیں۔ اس حال میں ایک مسلمان سے کیا مطلوب ہے؟ اس سے مطلوب ہے کہ وہ اسلام سے چمٹ جاۓ۔ کیونکہ اسلام ہی راہ نجات ہے ہر تاریخی معرکے میں امت کا دفاع صرف مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور آج چیچنیا، افغانستان، عراق، صومال اور فلسطین میں امت کا دفاع یہی مسلمان کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ تمام مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ  قتال، بیان، باہمی تعاون، ٹکراؤ ہر ممکن وسائل بروۓ کار لاتے ہوۓ متحرک ہو جائیں اور اس نظام کی تبدیلی کے لیے تمام تر راستے اپنائیں۔ ہم اپنے حقوق صرف اپنے بازو ہی سے واپس لے سکتے ہیں نہ کہ چوری بھیک اور جعلی انتخابات کے ذریعے۔ صلیبیوں اور یہود کے ایجنٹ حکومتی بھیڑئیے ان  عوامی تحریکوں کو کچلنے کی بھرپور کوشش کریں گے جیسا کہ محلہ کبریٰ میں ہوا تھا لیکن مسلسل ثابت قدمی اور قربانیوں کے ذریعے وہ عنقریب  اللہ کے حکم سے شکست کھا جائیں گے۔ چنانچہ صبر اور ثابت قدمی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں پس یقیناً حقوق چھینے جاتے ہیں تحفے میں نہیں ملتے۔ ملازمین افسروں اور طالبِ علموں کو چاہیے کہ وہ اپنا غضب سڑکوں  پر منتقل کریں اور  مساجد، کارخانوں، یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کو مزاحمت اور جہاد کی تقویت کے مراکز بنا دیں۔تمام مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ متحرک ہو جائیں کیونکہ یہ صرف کسی جماعت یا تنظیم کی جنگ نہیں بلکہ یہ تو پوری امت کی جنگ ہے۔ لہٰذا  امت مسلمہ پر لازم ہے کہ اس کے مجاہدین، جوان، عورتیں، بچے، بوڑھے، علماء، مفکرین، قائدین اور عوام مسلم علاقوں سے صلیبی اور یہودی حملہ آوروں کو مار بھگانے کے لیے اور ایک ایسی اسلامی مملکت کے قیام کے لیے یکجا ہو جائیں جس میں شریعت کے مطابق فیصلے ہوں، جو مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرے  اور امت کی دولت لوٹنے والے ہاتھوں کو پکڑ لے۔کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ مصر کی مبارک سر زمین پر رہنے والوں کو روٹی اور پانی تک میسر نہیں؟ مصر کی دولت کہاں چلی گئی؟اسلامی مملکت کے قیام کے لیے لازم ہے کہ  اپنے دین کے لیے قربانیاں دینے اور اپنے رب پر توکل کرنے والا مسلمانوں کا ہراول دستہ حرکت میں آۓ اور اس دستے پر لازم ہے کہ وہ اکٹھے ہوں، منصوبہ بندی کریں اور آزادی، عزت، وقار اور  اسلامی مملکت کے قیام کے راستے پر اس امت کی قیادت کریں’’ ۔

Monday, December 31, 2012

تصاویر: سرزمین خراسان میں مجاہدین کا مرکز

Sunday, December 23, 2012

انگریزی خاک کا خمیر

تحریر: عبد اللہ حفیظ
قیامِ پاکستان سے قبل برّ صغیر میں انگریز بیرونی قابض کی حیثیت سے موجود تھا۔ جو دین، قوم، خطہ، نسل اور زبان ہر چیز میں فرق کے باوجود اپنے معاشی مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی تسکین کے لیے بہرصورت معاشی و افرادی قوت کے حامل اس خطے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے جتنے بھی قوانین بناۓ اور جو بھی ادارے قائم کیے ان کا بنیادی ہدف یہی رہا۔ اس سب کے ساتھ مقامی آبادی کو قابو میں رکھنے، ان میں اور حکومت میں ربط بڑھانے اور انہیں اپنے مفادات کی راہ میں استعمال کرنے کے لیے’’مقامی معاونین‘‘ کا ایک تابعدار طبقہ انگریز جیسے اجنبی کی ناگزیر ضرورت تھا۔  تعلیم وتحریص کے بعد انگریز کو بہت سے’’سر‘‘اور ’’نواب‘‘میسر آگئے۔ جنہوں نے ڈیڑھ سو سال انگریز کی سرکار کو قائم رکھا۔ دفتروں کا کام چلانے میں پینٹ کوٹ پہنے بابو کام آۓ اور دیہی علاقوں میں  حکومتی رٹ بحال رکھنے کے لیے انگریزی سرکار کا دیا ہوا ’’ٹکا‘‘ پگڑی میں سجاۓ ہوۓ نواب۔ ان کی سرکار انگریز تھی اور یہ عوام کی سرکار۔ عوام کو اپنی ضروریات اور مسائل کے حل کے لیے ان تک آنا پڑتا۔ یہ عوام کے مسائل اور ضروریات کو گورے افسروں تک پہنچاتے اور گوروں کے لیے مقامی آبادی سے فوج میں بھرتیاں، زرعی پیداوار کی برطانیہ کے کارخانوں کے لیے فراہمی اور امن و امان کو یقینی بناتے۔ اسی خدمت کے بدلے یہ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بنے اور فوج و سول اداروں میں بڑے عہدوں پر براجمان کیے گئے۔ گویا یہ ریاست کے اندر ایک ریاست تھی، شاید کوئی دوسرا اسے مافیا کا نام بھی دے دے۔ ان ذیلی حکمرانوں کے یونہی وارے نیارے رہے یہاں تک کہ برطانیہ عالمی جنگوں میں اپنی کمزور ہوتی صورتحال کے باعث یہاں سے کوچ کرنے پر مجبور ہوا۔

Saturday, December 15, 2012

کیا پاکستان میں کوئی اُم احمد نہیں ؟


تحریر: عبداللہ حفیظ
ڈاکٹر صفوت حجازی  مصر کے ایک معروف داعی اورعالمِ دین ہیں جو جغرافیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد علمِ دین کی طرف متوجہ ہوئے، عالمِ عرب کی مختلف اسلامی جامعات سے  حدیث کا علم حاصل کیا اوراسی علم میں پی ایچ ڈی  کی ۔مصر کے نظامِ حکومت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں آپ ایک مرکزی کردار تھے۔ الجزیرہ ٹی وی کو اس تحریک کی کہانی سناتے ہوئے آپ نے  دل کو چھوتا ہوا ایک انوکھا واقعہ سنایا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو شروع ہونے والے بظاہر معمول کے عوامی مظاہروں نے ۲۸ جنوری تک پورے ملک کو ہلا ڈالا تھا۔ ۲۸ جنوری کی خونی رات میں مظاہرین نے مصر کی بدنامِ زمانہ وزارتِ داخلہ کی عمارت کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ وزارتِ داخلہ عوامی غیض و غضب کا خاص ہدف تھی کیونکہ ملک کے داخلی امن و امان کی ذمہ دار یہ وزارت مصر کے  ‘‘مسنگ پرسنز’’ (Missing Persons)کی پراسرا رگمشدگیوں کی ذمہ دار بھی تھی اور مصری جیلوں میں ہونے والےوحشیانہ تشدد کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔لیکن اس سے قبل کہ مظاہرین اس عمارت کے قریب پہنچتے، عمارت کی چھت پر تعینات عوام کے محافظوں نے سنائیپر فائر کے ذریعے چن چن کر مظاہرین کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ بیشتر مظاہرین کے سر، گلے یا سینے میں گولیاں لگیں اور ایک ہی گولی بالعموم جان لیوا ثابت ہوئی۔ لیکن دہائیوں کے ظلم سے ستائے عوام  تھے کہ گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود آگے بڑھنے کے لیے رات بھر کوشاں رہے۔ اس ایک رات میں دو سو مظاہرین شہید کیے گئے، مگر یہ خون الٹااس تحریک کو مزید مہمیز دینے کا باعث بنا۔

Tuesday, December 11, 2012

مرے ایمان کے ساتھی


پوسٹر کو عمدہ شکل  میں دیکھنے کے لیے علیحدہ صفحے پر کھولیں