Wednesday, January 09, 2013

اپنی قیادت کو پہچانیں

تحریر: عبد اللہ حفیظ
 ‘‘مسلمانوں کے ہوش مند ہراول دستے کو چاہیے کہ حرکت میں آئیں اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جاۓ۔ ان کو چاہیے کہ حرکت میں آئیں اس سے قبل کہ ہم کل قاہرہ اور ریاض میں بھی پیٹریاس کو قتلِ عام اور عزتوں کی پامالی کے لیے ’امن کونسلوں‘ کی قیادت کرتے ہوۓ دیکھیں۔ اس حال میں ایک مسلمان سے کیا مطلوب ہے؟ اس سے مطلوب ہے کہ وہ اسلام سے چمٹ جاۓ۔ کیونکہ اسلام ہی راہ نجات ہے ہر تاریخی معرکے میں امت کا دفاع صرف مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور آج چیچنیا، افغانستان، عراق، صومال اور فلسطین میں امت کا دفاع یہی مسلمان کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ تمام مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ  قتال، بیان، باہمی تعاون، ٹکراؤ ہر ممکن وسائل بروۓ کار لاتے ہوۓ متحرک ہو جائیں اور اس نظام کی تبدیلی کے لیے تمام تر راستے اپنائیں۔ ہم اپنے حقوق صرف اپنے بازو ہی سے واپس لے سکتے ہیں نہ کہ چوری بھیک اور جعلی انتخابات کے ذریعے۔ صلیبیوں اور یہود کے ایجنٹ حکومتی بھیڑئیے ان  عوامی تحریکوں کو کچلنے کی بھرپور کوشش کریں گے جیسا کہ محلہ کبریٰ میں ہوا تھا لیکن مسلسل ثابت قدمی اور قربانیوں کے ذریعے وہ عنقریب  اللہ کے حکم سے شکست کھا جائیں گے۔ چنانچہ صبر اور ثابت قدمی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں پس یقیناً حقوق چھینے جاتے ہیں تحفے میں نہیں ملتے۔ ملازمین افسروں اور طالبِ علموں کو چاہیے کہ وہ اپنا غضب سڑکوں  پر منتقل کریں اور  مساجد، کارخانوں، یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کو مزاحمت اور جہاد کی تقویت کے مراکز بنا دیں۔تمام مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ متحرک ہو جائیں کیونکہ یہ صرف کسی جماعت یا تنظیم کی جنگ نہیں بلکہ یہ تو پوری امت کی جنگ ہے۔ لہٰذا  امت مسلمہ پر لازم ہے کہ اس کے مجاہدین، جوان، عورتیں، بچے، بوڑھے، علماء، مفکرین، قائدین اور عوام مسلم علاقوں سے صلیبی اور یہودی حملہ آوروں کو مار بھگانے کے لیے اور ایک ایسی اسلامی مملکت کے قیام کے لیے یکجا ہو جائیں جس میں شریعت کے مطابق فیصلے ہوں، جو مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرے  اور امت کی دولت لوٹنے والے ہاتھوں کو پکڑ لے۔کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ مصر کی مبارک سر زمین پر رہنے والوں کو روٹی اور پانی تک میسر نہیں؟ مصر کی دولت کہاں چلی گئی؟اسلامی مملکت کے قیام کے لیے لازم ہے کہ  اپنے دین کے لیے قربانیاں دینے اور اپنے رب پر توکل کرنے والا مسلمانوں کا ہراول دستہ حرکت میں آۓ اور اس دستے پر لازم ہے کہ وہ اکٹھے ہوں، منصوبہ بندی کریں اور آزادی، عزت، وقار اور  اسلامی مملکت کے قیام کے راستے پر اس امت کی قیادت کریں’’ ۔

یہ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ، امیر تنظیم القاعدہ کے الفاظ ہیں جو عراق پر امریکی حملے کے پانچ سال مکمل ہونے کے موقع پر ان کے جاری کردہ بیان، عراق جنگ کے پانچ سال اور طواغیت کی بندشیں، سے لیے گئے ہیں۔۲۰۰۸ ء میں ان الفاظ کو سنا تو ایک ایسے قائد کی تصویر ذہن میں بیٹھی جو قومیتوں اور ملکوں کی بجاۓ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقیدے کی بنیاد پر دی گئی شناخت یعنی امت کے بارے میں متفکر ہے۔ جس کا دل امت کے ساتھ اپنوں اور غیروں کی جانب سے کیے جانے والے مظالم پر کڑھ رہا ہے، جو مسلمانوں کے دین و دنیا کی اصلاح چاہتا ہے، بغیر علاج اور دواؤں کی عدم دستیابی کے باعث دم توڑنے والے بچوں پر نوحہ کناں ہے،قحط زدہ مسلمانوں کی بھوک کو محسوس کر رہا ہے،مسلمانوں کو ان کے گھر میں گھسے چوروں سے بچانا چاہتا۔ جس کی کوشش ہے کہ کسی طرح یہ امت اپنی قوت کو جمع کر کے اپنے اوپر چھائی ذلت کی چادر کو اتار دے اور پھر سے خلافت کی علَم بردار بن جاۓ۔
لیکن آج ظلم و نا انصافی کے خلاف عرب دنیا میں برپامزاحمتی تحریکوں اور بعض امور میں حاصل کردہ ان کی کامیابیوں اور پاکستان کے مسلمانوں کی روز بروز بگڑتی صورتحال، یعنی حکمرانوں کی دین فروشی، رشوت خوری،ڈاکہ زنی، عوام میں بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی،سہولیاتِ زندگی کی عدم دستیابی اور اس پر اہلِ پاکستان کی بے بسی کے پس منظر میں جب یہ الفاظ دوبارہ سنےتو ایک عجیب احساس بیدار ہوا۔شیخ کے یہ الفاظ آج تعبیر پا رہے ہیں اور امت تبدیلی کے عرصے سے گزر رہی ہے۔ جہاں تک عرب دنیا کا تعلق ہے تو وہ ظلم و استبداد اور دیگر مسائل جن کی وجہ سے عوام اپنے گھروں سے نکلے اور جابر حکمرانوں کے سامنے ڈٹ گئے یہاں تک کہ اپنے پیاروں کو شہید ہوتے دیکھا، جیلوں کے مظالم برداشت کیے، خون میں لت پت زخمیوں کو اٹھایا، یہ تو وہی مسائل ہیں جن کو عالمی تحریکِ جہاد کی قیادتیں عرصے سے شدت کے ساتھ محسوس کر رہی تھیں۔شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ، ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ اور دیگر مجاہدین عرصے سے عوام کو تبدیلی کی راہ دکھاتے رہے اور انہیں ہر ممکن وسائل بروۓ کار لاتے ہوۓ مقامی و عالمی طواغیت کے خلاف اٹھنے کی دعوت دیتے آۓ ہیں۔ ’’حقوق چھینے جاتے ہیں، تحفے میں نہیں ملتے‘‘ ڈاکٹر ایمن حفظہ اللہ کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور آج ہمارے سامنے ہے کہ ہندو کش کے پہاڑوں سے بار بار اٹھتی ان آوازوں کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے۔مسلمانوں کے عوام و خواص، جوان و بوڑھے، علماء و مفکرین قربانی اور صبر و استقامت کا دامن تھامے اٹھے اور کمزور ہونے کے باوجود انہوں نے برسوں سے اپنی گردنوں پر مسلط خائن حکمرانوں سے نجات حاصل کر لی۔ اور یقیناً یہی راستہ پاکستان سمیت ان خطوں کے لیے بھی ہےجس کے عوام ابھی تک اس ظلم کو سہہ رہے ہیں۔
لیکن اگلی اور اہم چیز جو امت کے ان قائدین کو روٹی، کپڑا، مکان کی خاطر بغاوت کرنے والی عارضی قیادتوں سے ممتاز کرتی ہےوہ شریعت کے قیام کی دعوت ہے۔ یقیناً وہ نظام جو اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے، جو فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے حد درجہ فائق ہے انسان کے تراشے ہوۓ نظام سے، جبکہ اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ انسان  ضعیف، محتاج، جاہل، جلد باز اور جھگڑالو ہے۔واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون۔ وہ ممالک جن میں عوام اپنی گردن پر مسلط حکمرانوں کو مار بھگانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کے مسائل  کا حل بھی اسی میں ہے کہ وہ شریعت کو نافذ کریں اور اپنی قیادت ایسے افراد کو سونپیں جن کی زندگیاں شریعت پر قائم ہیں، جنہوں نے اسلام کی حفاظت اور غلبے کے لیے قربانیاں دیں، عالمی صلیبی صیہونی اتحاد کے حملوں کو اپنے سینوں پر روکا، ہمیشہ سے امت کے درد کو اپنا درد محسوس کیا۔ اور مسلمانانِ پاکستان جو مظالم تلے پسے نجات کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں، ان کے لیے یہی راہ ہے کہ وہ امت کے محسنین کو پہچانیں اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کی بجاۓ شریعت کے لیے جدو جہد کریں۔ صبر و استقامت کا دامن تھامتے ہوۓ ہر ممکن طریقہ کار سے اس باطل نظام کو اکھاڑ پھینکیں اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کو نافذ کریں۔یقیناً حقوق چھینے جاتے ہیں، تحفے میں نہیں ملتے اور دنیاوی و اخروی مسائل کا حل شریعت میں ہے نا کہ انسان کے تراشیدہ فلسفوں میں اور مسلمانوں کی قوت امّت کے طور پر مجتمع ہونے میں ہے نا کہ ملکوں اور قومیتوں کی صورت بٹنے میں۔

1 comment:

  1. مسلم امہ بیدار ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ گو کہ سلسلہ سست روی کا شکار ہے

    ReplyDelete

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں