Saturday, December 15, 2012

کیا پاکستان میں کوئی اُم احمد نہیں ؟


تحریر: عبداللہ حفیظ
ڈاکٹر صفوت حجازی  مصر کے ایک معروف داعی اورعالمِ دین ہیں جو جغرافیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد علمِ دین کی طرف متوجہ ہوئے، عالمِ عرب کی مختلف اسلامی جامعات سے  حدیث کا علم حاصل کیا اوراسی علم میں پی ایچ ڈی  کی ۔مصر کے نظامِ حکومت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں آپ ایک مرکزی کردار تھے۔ الجزیرہ ٹی وی کو اس تحریک کی کہانی سناتے ہوئے آپ نے  دل کو چھوتا ہوا ایک انوکھا واقعہ سنایا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو شروع ہونے والے بظاہر معمول کے عوامی مظاہروں نے ۲۸ جنوری تک پورے ملک کو ہلا ڈالا تھا۔ ۲۸ جنوری کی خونی رات میں مظاہرین نے مصر کی بدنامِ زمانہ وزارتِ داخلہ کی عمارت کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ وزارتِ داخلہ عوامی غیض و غضب کا خاص ہدف تھی کیونکہ ملک کے داخلی امن و امان کی ذمہ دار یہ وزارت مصر کے  ‘‘مسنگ پرسنز’’ (Missing Persons)کی پراسرا رگمشدگیوں کی ذمہ دار بھی تھی اور مصری جیلوں میں ہونے والےوحشیانہ تشدد کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔لیکن اس سے قبل کہ مظاہرین اس عمارت کے قریب پہنچتے، عمارت کی چھت پر تعینات عوام کے محافظوں نے سنائیپر فائر کے ذریعے چن چن کر مظاہرین کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ بیشتر مظاہرین کے سر، گلے یا سینے میں گولیاں لگیں اور ایک ہی گولی بالعموم جان لیوا ثابت ہوئی۔ لیکن دہائیوں کے ظلم سے ستائے عوام  تھے کہ گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود آگے بڑھنے کے لیے رات بھر کوشاں رہے۔ اس ایک رات میں دو سو مظاہرین شہید کیے گئے، مگر یہ خون الٹااس تحریک کو مزید مہمیز دینے کا باعث بنا۔

رات بھر کے ان خونی تصادموں میں شرکت کے بعد ، ڈاکٹر صفوت حجازی اگلی صبح بھی مصر کے تحریر چوک میں مجتمع مظاہرین کے وسط میں موجود تھے۔ آپ کہتے ہیں کہ صبح نو بجے کے قریب ایک عورت مجمعے کو چیرتی ہوئی میری طرف بڑھی، اس نے اپنا نام امِ احمد بتایا۔ وہ قریب آئی تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک کتبہ تھا جس پر اس نے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا کہ ‘‘میں تحریر چوک سے اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گی جب تک میں حسنی مبارک سے اپنا بدلہ نہ لے لوں’’!ڈاکٹر صفوت نے اس خاتون سے پوچھا کہ تم نے حسنی مبارک سے کس چیز کا بدلہ لینا ہے؟ کہنے لگی کہ میں پچاس سال کی ہو چکی ہوں۔تقریباً تیس سال قبل میری شادی ہوئی تھی۔ ہرخاتون کی طرح مجھے بھی اولاد کی شدید خواہش تھی، لیکن بیس سال تک اولاد نصیب نہیں ہوئی۔ پھر آج سے تقریباً دس سال قبل اللہ تعالیٰ نے حمل ٹھہرایا، جب ولادت کاوقت بالکل نزدیک آگیا تو میرے شوہر مجھے لے کر ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو دیکھا کہ سڑک بند تھی۔ شوہر نے گاڑی روک کراتر کر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ حسنی مبارک کسی جگہ خطاب کرنے آیا ہوا تھا اس لیے سڑکیں بند تھیں۔ تین گھنٹے تک امِ احمد کا شوہر سڑککھلنے کا انتظار کرتا رہا، مگر سڑک تھی کہ کھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔بالآخر جب اس نے امِ احمدکی طبیعت بگڑتے دیکھی تو بے قرار ہو  کر پولیس کی منت سماجت کرنے لگا کہ میری بیوی کی حالت نازک ہے، خدارا! کم از کم ہماری گاڑی کو آگے جانے دو۔ جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو  پولیس نے بھڑی سڑک پر اسے بے عزت کیا اور لاتیں اور گھونسے مار کر واپس کیا۔ زخمی جسم اور زخم خوردہ عزت لیے وہ بے چارا جب واپس آیا تو دیکھا کہ گاڑی ہی میں ولادت ہو چکی تھی۔تھوڑی دیر میں امِ احمد کا احمد بھی وہیں فوت ہو گیااور سڑک پھر بھی بند رہی۔ امِ احمد ڈاکٹر صفوت حجازی سے کہنے لگی کہ یوں میری عمر بھر کی تمنا چلی گئی اور میرا شوہر بھی اس غم اور ذلت کو نہ سہہ سکا اور کچھ عرصے بعد فوت ہو گیا۔ آج میں دنیا میں تنہا ہوں۔نہ احمد رہا، نہ ابو احمد ۔۔۔۔اور اس کا ذمہ دار حسنی مبارک ہے۔ اگر آج آپ سب بھی میدانِ تحریر سے واپس چلے گئے تو میں اکیلی یہاں کھڑی رہوں گی یہاں تک کہ حسنی مبارک سے بدلہ نہ لے لوں ۔ ڈاکٹر صفوت کہتے ہیں کہ اس عورت کی بات نے تحریر چوک میں موجود مظاہرین میں ایک نئی روح بھر دی اور اس کے حوصلے اور استقامت نے سب کو استقامت بخشی ۔ وہ خاتون مستقل تحریر چوک میں موجود رہی  یہاں تک کہ حسنی مبارک مستعفی ہو گیا۔ جس دن حسنی مبارک حکومت سے باہر ہوا، اس دن بھی وہ عورت وہی کتبہ اٹھائے ، مجمع چیرتے ہوئے آگے بڑھی۔ ڈاکٹر صفوت کہتے ہیں کہ میں نے اسے کہا : اے ام احمد! اب تو ہم نے تمہارا بدلہ لے لیا ہے، اب تو اس کتبےکو چھوڑ دو۔ امِ احمد کہنے لگی: میرا بدلہ تو لے لیا گیا لیکن ابھی بھی بہت کام باقی ہے اور یہ کہہ کر اس نے اس کتبے کا رخ پھیرا تو اسکے دوسری طرف یہ عبارت درج تھی:
’’یا شرفاء مصر!موعدنا القادم في بیت المقدس!‘‘
یعنی:‘‘ اے شرفائے مصر! اگلی منزل بیت المقدس ہے!’’
کیا پاکستان کی ۱۸ کروڑ عوام  میں کوئی نہیں کوئی نہیں جو امِ احمد جیسے عالی جذبے رکھتا ہو؟ظلم سہہ سہہ کر ، ذلت کے جام پی پی کرجس کا پیمانہء صبر لبریز ہو گیا ہو؟ کوئی نہیں جو بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں، ڈرون حملوں میں شہید ہونے والی عورتوں، سوات میں قطار میں کھڑا کر کے بھون دیئے جانے والے بچوں، خروٹ آباد میں چھلنی کئے جانے والے والے برقعوں، مہنگائی کے ہاتھوں خود کشی کرنے والے نوجوانوں ، گیس وبجلی کی لامتناہی لوڈ شیڈنگ سے بے حال ہو کر چل بسنے والے بوڑھوں کا بدلہ لینے نکلے۔۔۔اور اس وقت تک گھروں کو نہ لوٹے جب تک منزل حاصل نہ کر لے؟                 

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔