Wednesday, March 20, 2013

زرداری، خامنائی گیس پائپ لائن معاہدہ



امریکی ناراضگی، امریکہ کی جانب سے معاشی پابندیاں، بلوچستان میں سیکورٹی کا مسئلہ، سرمایہ کی عدم فراہمی، مہنگی قیمت خرید۔۔۔ ان تمام خدشات کے باوجود ۱۹۹۵ء سے ہوا میں معلق ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا دونوں ممالک کے صدور کے ہاتھوں افتتاح یقیناً ایک حیران کن امر ہے۔ ونزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی موت کے بعد کیا اب زرداری صاحب ہوگوشاویز بننے جا رہے ہیں یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔تو کیا پھر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ سے خلع لینے کا فیصلہ کر لیا؟ لیکن یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ تو شکست خوردہ امریکی افواج کے افغانستان میں بچے کھچے سامان کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی ائیر پورٹ پر امریکی کمپاؤنڈ کی تعمیر، اسلام آباد میں سفارت خانے کے نام پر امریکی چھاؤنی کا قیام، پاکستان میں تعلیم، پولیس، میڈیا، فوجی و سول افسران کی تربیت  اور دیگر شعبوں میں روز بروز بڑھتا امریکی رسوخ اور نگران وزیرِ اعظم تک کی تعیناتی میں امریکی کردار تو بتا رہا ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز تا حال امریکی ریاست کے طور پر ہی چل رہا ہے۔ کیا یہ کہا جاۓ کہ حکومت نے پاکستان میں موجود توانائی کے بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوۓ اس کے حل کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے تو بات سیدھی یہ ہے کہ رینٹل پاور پراجیکٹ میں کرپشن، ایل پی جی سیکنڈل، سوئی گیس کی سیاسی مقاصد پر تقسیم، کالا باغ ڈٰیم کا مسئلہ، خزانے میں کرپشن کی وجہ سے ایندھن کی بجلی گھروں کو عدم فراہمی،  بحران تو خود پیدا کردہ ہی ان کا ہے۔
 ویسے بھی معاہدے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاۓ تو معاشی حوالے سے اس میں پاکستان کا خسارہ ہے اور قوی امکان ہے کہ گیس نرخوں میں ہوشربا  اضافے کی وجہ سے عوام کی معاشی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ڈیڑھ بلین ڈالر کی رقم درکار ہے۔ اس میں سے ۵۰۰ ملین ڈالر ایران دو فیصد شرح سود مع لندن انٹر بینک ریٹ  پر پاکستان کو قرض دے رہا ہے۔ باقی ایک بلین ڈالر کی رقم پاکستانی عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کی جاۓ گی۔ منصوبے پر کام کا ٹھیکہ ایک ایرانی کمپنی تدبیر کو دیا گیا ہے یقیناً اس کا فائدہ بھی ایرانی معیشت ہی کو ہو گا۔ اس کے علاوہ پائپ لائن کو بلوچستان کے علاقوں میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر مستقل سرمایہ درکار ہو گا۔ یہ تمام قیمت بھی گیس کے بلوں میں اضافے کی صورت میں عوام دے گی اور پھر گیس کے جو نرخ ایران دے رہا ہے وہ کہیں زیادہ ہیں۔ گیس کی قیمت اندازاً ۱۲ ڈالر فی ایم بی ٹی یو اور مائع گیس کی ۱۸ ڈالر ہو گی۔ حالانکہ اگر امریکہ سے بھی گیس پاکستان منگوائی جاۓ تو وہاں کے نرخ کے مطابق مائع گیس کی قیمت ۸ ڈالر تک ہونی چاہیے۔  اب ایندھن کی اتنی گراں قیمت کا باقی اشیاء کی قیمتوں پر کیا اثر ہو گا یہ خود سمجھا جا سکتا ہے۔  جبکہ فی الوقت پاکستان میں توانائی کی فراہمی کے کئی متبادل اور سستے منصوبے قابلِ عمل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کا آغاز  پاکستان سے زیادہ ایرانی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہوا ہے اور اس کے پیچھے عوامی مفاد نہیں بلکہ ایرانی رافضی مفاد کار فرما ہے۔ ایران کے لیے یہ منصوبہ شروع دن ہی سے نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کا ایک پہلو تو معاشی ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے ایرانی ایندھن کو پاکستان کے علاوہ مغربی چین اور بھارت تک رسائی حاصل ہو گی۔ آغاز میں تو یہ منصوبہ تین ممالک پاکستان، ایران اور بھارت کے درمیان طے پا رہا تھا اور چین اس سلسلہ میں پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر قرض بھی فراہم کر رہا تھا۔ لیکن  ۲۰۰۹ میں انڈیا گیس کے بھاری نرخ اور امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیائی توانائی کے معاہدوں کی وجہ سے اس سے دستبردار ہو گیا۔ چین نے بھی بعد ازاں معاہدے کی پیجیددگیوں کے پیشِ نظر مالی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا۔  لیکن گوادر بندرگاہ کی چین کو حوالگی اور اس کے بعد اس کے ایندھن کی عالمی تجارت کا اہم مرکز بننے کے امکان کی وجہ سے ایران کے لیے اس معاہدے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی لیے ایران نے چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کا بھی اعلان کیا ہے۔جس کے لیے ایک الگ آئل پائپ لائن بھی ایران سے گوادر تک لائی جاۓ گی۔ایران پر ایندھن کی فروخت سے متعلق عالمی پابندیوں کے بعد سے ایران کی ایندھن کی برآمد نصف رہ گئی ہے اور اس کی معیشت خطرات سے دوچار ہے۔ اسی وجہ سے ایران آج مجبور ہے کہ وہ معیشت کو بچانے کے لیے  غیر قانونی طریقوں پر اپنی مصنوعات فروخت کرے۔ گذشتہ روز پاکستان میں غیر قانونی طور پر ایرانی تیل کے چار جہازوں کی آمد اور ملک میں اس کی غیر قانونی فروخت کی وجوہات بھی یہی ہیں۔ لہٰذا ایرانی معیشت کو اس وقت ایک منڈی کی اشد ضرورت ہے جو زرداری صاحب ایران ہی کی شرائط پر اُسے مہیا کر رہے ہیں۔
اس منصوبے سے ایران کا دوسرا اہم مقصد، بلکہ مقصدِ اصلی خمینی انقلاب کی ہمسایہ ممالک میں درآمد کے لیے ایرانی نفوذ کی پالیسی  کا اجراء ہے۔ شروع دن سے ایرانی حکومت ہمسایہ ممالک میں فکری و سیاسی نفوذ حاصل کرنے کے لیے معاشی منصوبوں اور ہنر مند افرادی قوت کی فراہمی  کا سہارا لیتی آئی ہے۔ ایران کی اس پالیسی کے ہمسایہ ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوۓ اور کس طرح وہاں پر ایران نے سیاسی و معاشرتی قوتوں کو سازش و قوت کے بل پر تبدیل کرنے کی کوشش کی اس کی واضح مثالیں شام، عراق، بحرین، یمن، کویت، لبنان اور خود پاکستان ہیں۔ صدام حسین کے بعد آج عراق کی یہ صورتحال ہے کہ گذشتہ دو ماہ سے وہاں کے سنّی  نوری المالکی کی ایران نواز رافضی حکومت کے مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوۓ ہیں۔ شام کے اہلِ سنّت  دو سال سے ایرانی پاسدارانِ انقلاب، لبنانی حزب اللہ اور عراقی و شامی فوج کے رافضی اتحاد کے ہاتھوں بد ترین قتلِ عام کا شکار ہیں، لبنان حزب اللہ کے ہاتھوں یرغمال ہے اور آۓ روز وہاں پر اہلِ سنّت کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ یمن میں ایرانی اسلحے اور مال پر چلنے والی رافضی شیعوں کی حوثی تحریک متحرک ہے، خود پاکستان میں علماۓ کرام کے قتل میں ملوث اور بدامنی میں ملوث  گرفتار رافضی عناصر ایران سے شہہ پانے کا بارہا اعتراف کر چکے ہیں۔ ایسی صورت میں ایران کے ساتھ پاکستان کے معاہدے یقیناً معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
خود اس گیس منصوبے پر کام کا آغاز پاکستان میں ایرانی نفوذ کی نشاندہی کرتا ہے۔ زرداری نے تمام تر بیرونی  دباؤ اور داخلی مشکلات کے باوجود صرف رافضی ہونے اور ولی الفقیہ خامنائی کے ساتھ بلا شرط وفاداری کا ثبوت دیتے ہوۓ اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔  اس موقع پر زرداری صاحب نے امریکی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوۓ کہا "بین الاقوامی اور داخلی عناصر نے ایران پاکستان تعاون میں توسیع کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی لیکن اب ہم نے سیکھ لیا ہے کہ "اسلام" کے دشمنوں سے کیسے نمٹا جاۓ"۔ اس سے پہلے رافضیوں کے روحانی لیڈر خامنائی نے ملاقات میں زرداری صاحب کے سامنے واضح کیا تھا کہ امریکی دباؤ کے باوجود یہ منصوبہ ضرور پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔