Wednesday, March 27, 2013

قوت مطلوب ہے


علی احمد
" جہاں تک ہو سکے قوت سے (فوج کی جمیعت  اور اسلحے سے) اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلہ کے لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پرجن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے۔"(سورہ الانفال)
قوت و طاقت اللہ سبحانہ تعالیٰ نزدیک پسندیدہ خوبی ہے ۔ نبیﷺ کے فرمان کے مطابق "طاقتور مسلمان(دین میں) اللہ کے نزدیک افضل ہے"۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، اب خلیفہ سے لامحالہ یہ ہی توقع کی جائے گی کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا قانون نافذ کرے، یہی اس کی ذمہ داری بنتی ہے۔ایک کمزور مسلمان جو کہ خود بھی ناتواں ہو اور اس کی پشت پر کوئی طاقتور جماعت بھی نہ ہو، وہ اللہ کا قانون کیا نافذ کرے گا، بلکہ وہ تو حق کے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے بھی خوف کھائےگا۔ اگر باطل پرستوں کے سامنے حق کی بات کرے گا بھی تواس بات کا یقینی  خیال رکھے گا کہ کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکل جائےکہ سامنے والا بُرا مان جائے اور اشتعال میں آکر نقصان پہنچا دے ۔ (انبیاء کا معاملہ اس سے مختلف ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کوبے انتہا ایمانی قوت کے ساتھ مبعوث کیا )۔ تاریخ اس بات پر بھی شاہدہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دین کو غالب کرنے کا کام طاقتور مسلمانوں سے ہی لیا ہے اور ان کو ایمان کی قوت سے اور مضبوط کر کے بہت تھوڑی جماعت کو بڑے بڑے لشکروں پرفتح دی ہے۔ کفر اور ایمان کی ٹکر اِس دنیا کے قائم ہونے کے وقت سے ہے اورقیامت تک رہے گی کیونکہ اسلام کا مزاج غلبے والا ہے ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بندوں کی ایک قلیل جماعت کودین کے غلبے کے لئے اٹھاتا رہا ہے اور اٹھاتا رہے گا۔ قرآن و حدیث اس کا یقین دلاتے ہیں کہ "اللہ تو اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا چاہے مشرکوں کو برا ہی لگے"۔
اب جس کو خلیفۃ اللہ کا منصب پسند ہے اور دارالعمل میں کامیاب ہو کر دارالجزاء میں اعلی ٰدرجات کا حقدار بننا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ اپنی قوت و طاقت میں ہر ممکن طریقہ سے اضافہ کرے اور ایمان والوں کی جماعت میں شامل ہو کر اسے مضبوط کرے۔ جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ"تم جماعت کولازم پکڑ لو"۔
آج کے اس پر فتن دور میں جبکہ طاغوتی قوتیں ہر طرح سے منظم اور مضبوط ہیں ، نظام زندگی کے تمام شعبے ان کی گرفت میں ہیں ۔ حکومتیں اور افواج ان کے پاس ہیں۔عدالتوں میں ان کا بنایا ہوا قانون چلتا ہے۔ میڈیا اور نظام تعلیم ان کے قبضے میں ہیں جن کے ذریعے وہ باآسانی نئی نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔اسلام کے مقابلے میں جمہوریت کونظام زندگی کے طور پر نافذ کر کے معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی ہے۔ ہر طرح کی بے راہ روی اور فحاشی کو حکومتی سرپرستی میں فروغ دے کرسماجی، اخلاقی و اسلامی اقدار کو ڈھا دیا گیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ طاقت و غلبے کی کوئی ضرورت نہیں ہم ڈایئلاگ کے ذریعے اور جمہوری عمل میں شریک ہو کر معاشرے کو بدل دیں گے اور اسلام کودنیا میں غالب کر لیں گے تو اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود فریبی و خام خیالی میں مبتلا ہے اور بہت جلداپنا وقت پورا کرکے اللہ کے سامنے حاضر ہو گا پھر اللہ اس کو سب کچھ جو وہ کرتا تھا صاف صاف بتا دے گا۔

آج اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو دین دشمن گروہ اور جماعتیں مسلح و منظم ہیں- کفار نے اپنے ممالک میں بھی فوجی ٹریننگ اور مارشل آرٹ کی تربیت اپنے عوام کے لئے لازمی قرار دی ہوئی ہے۔ انکی حفاظت کے لئے اسلحے کا حصول آسان کیا ہوا ہے- حکومتی سطح پر بھی خطرناک ترین اسلحے کا انبار لگایا ہوا ہے اور بے دریغ مسلمانوں پر استعمال بھی کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ سوچ پروان چڑھا دی ہے کہ اسلحہ رکھنا بدمعاشوں کا کام ہے، لڑنے کا فن سیکھنا شریفوں کا کام نہیں۔جب تک اسلحہ مسلمانوں کا زیور تھا اور فن سپاہ گری سیکھنا عام تھا مسلمان بام ِعروج پر رہے ۔ آج عوام کے لئے اسلحہ کا لائسنس رکھ دیا گیا ہے جس کا حصول شریف آدمی کے لئے مشکل ترین جبکہ طاغوت کے آلہ کاروں کے لئے آسان ہے۔ مسلمان ممالک اگر جدید جنگی ٹیکنالوجی حاصل کریں تو شور مچاتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھلانے والے ہتھیار تیار کے جا رہے ہیں، اسے روکا جائے۔
اس صورتحال میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی قوت میں ہر ممکن طریقے سے اضافہ کریں اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کی جدوجہد کریں۔
نبیﷺ کی حدیث کا مفہوم ہےکہ "اگر برائی ہوتے دیکھو تو ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے روکنے کی قدرت نہیں رکھتے توبرائی کو زبان سے روکو، زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو ایمان کا آخری درجہ ہے کہ اس کو دل میں برا جانو۔"(صحیح المسلم)
آج ایک طرف کفار نے ہر طرف سے مسلمانوں پر یلغار کی ہوئی ہے، اپنے پٹھو مسلم حکمرانوں سے مل کر ظلم کا بازار گرم کیا ہواہے ، تو دوسری طرف ہمارا معاشرہ بے راہ روی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر کسی سے برائی کو روکنے کی بات کی جائے تو عمومی طور پراس حدیث کی غلط تشریح کرتے ہوئے تاویلات پیش کی جاتی ہیں کہ ہم کمزور ہیں ہاتھ سے نہیں روک سکتے۔ زبان سے روکنے میں بھی ہمیں خطرہ ہے۔ ہم ایمان کے ادنیٰ درجے پر ہیں، ہم نے دل میں برا جان لیا ہے۔ ارے تم نے کیوں فقط برا جان لیا؟ کمزور ہو تو ان کے پاس کیوں نہیں جاتے جو برائی کو روکنے کی طاقت رکھتے ہیں، ان کو مضبوط کیوں نہیں کرتے جو ظلم کے آگے بند باندھنے کی ہمت رکھتے ہیں- خود ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکنے کا مطلب تو یہ ہے کہ زبان استعمال کرو، قلم اٹھاؤ اور ایک مجمع کو تیار کرو، ایک جتھا تیار کرو، لوگوں کی ذہن سازی کرو۔ ان کے ساتھ مل کر برائی کو روکو۔
 فی الحال ہاتھ سے نہیں روک سکتے، زبان سے بھی نہیں روک سکتے' اب دل سے بُرا جاننا ہے- جی ہاں ہم نے برائی دیکھ کر دل میں بُرا جان لیا، ہم مانتے ہیں کہ ہم ایمان کے کمزور درجے پر ہیں- کوئی اُس کی بہن بیٹی کو اٹھا کر لے گیا، اُس نے دل میں بُرا جان لیا۔ کسی نے اُس کا گھر لوٹ کر جلا دیا، اُس نے دل میں بُرا جان لیا- فقط دل میں بُرا جان لینا کس کے لئے ہے- جو بالکل ہی بوڑھا ہوگیا، بستر سے لگ گیا یا اپاہج ہے۔ قرآن کہتا ہے " اندھے پر کوئی گناہ نہیں، لنگڑے پر کوئی سختی نہیں"۔ اتنا کمزور ہے تو برائی کو دل میں بُرا جان لے- لیکن اِس طرح نہیں کہ بس دل میں برا جان لیا اور بات یہیں ختم ہو گئی۔ اگر واقعی ایمانی غیرت نے اسے دل سے برائی اور ظلم کو برا سمجھنے پر مجبور کیا ہے تو اب کسی پَل اُس کو چین نہیں آنا چاہیے۔ ہر وقت اُس کے ذھن میں برائی کو روکنے کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ جب واقعی دل میں کڑھن ہو گی، ظلم کو روکنے کے طریقے سوچے گاتو یقینا اللہ پاک اس کے ذہن میں کوئی ایسا آئیڈیا ڈال دے گا ۔وہ اس آئیڈیا کو ان کے پاس پہنچائے جو برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں، جو پہلے ہی میدان میں اُترے ہوئے ہیں، وہ اِس منصوبے کو قابلِ عمل بنائیں گے- اِس طرح معاشرے سے برائی ختم ہو گی۔ اس طرح ظالم کا ہاتھ رکےگا- اس طرح کوئی ایمان کے آخرے درجے پر ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
نبیﷺتکیہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، اچانک غصہ سے اٹھ بیٹھے، فرمایا "خدا کی قسم! تم اس وقت تک فلاح نہ پاؤ گے جب تک ان کو ظلم سے نہ روک دو۔"
-------

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔