Wednesday, March 06, 2013

پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی شب و روز محنت

تحریر: عبد اللہ حفیظ

لڑکی! تمہارا خواب کیا ہے؟
تمہارا مستقبل روشن ہے
یہ تو تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے
یا یہ کہ تمہاری آواز دبا دی گئی ہے؟
اس دنیا میں انصاف نہیں ہے
لیکن کوشش جاری ہے
ہم مل کر کچھ کر سکتے ہیں
ہم آزاد اور بے خوف ہیں
لڑکیو! لڑکیو! امید رکھو
لڑکیو! عنقریب تبدیلی آۓ گی
یہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر موجود ایک ویڈیو  گانے کے الفاظ ہیں۔ ویڈیو میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے ایک امریکی عورت معصوم پاکستانی بچیوں کو لیے ایک پاکستانی ستار نواز کے ساتھ  یہ گانا گا رہی ہے۔ گانے کی مقصدیت اس کے الفاظ سے واضح ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اسلام کے خلاف کثیر جہتی صلیبی جنگ چھیڑے ہوۓ ہیں۔ اس جنگ کے تحت جہاں ایک طرف افغانستان، عراق، یمن، صومالیہ،  پاکستان کے قبائلی علاقوں میں  امریکی افواج کے حملے برس ہا برس سے جاری ہیں وہیں دوسری طرف ثقافتی، تعلیمی، معاشرتی سطح پر بھی اسلام کے تشخص کو بگاڑنے اور مسلم قلوب و اذہان   میں مغربی اقدار کی   فوقیت بٹھانے کے لیے بے شمار نرم طریقے اپناۓ جا رہے ہیں۔ اسلام کے دشمن یہ جانتے ہیں کہ اسلام کی ان میدانوں میں تعلیمات ایک مسلمان کو وہ مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں جس  سےوہ کفر و الحاد کے سامنے نہتا سینہ سپر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جہاں دینی غیرت و حمیت کے حامل مجاہدین اور علماۓ ربّانی ان کی براہِ راست جنگ   کا ہدف ہیں وہیں ساتھ ہی ساتھ وہ مسلم معاشرہ بھی ان کی بالواسطہ جنگ کی لپیٹ میں ہے جو دین کے دفاع میں کھلنے والے محاذوں کو افراد فراہم کرتا ہے۔  اس میں بھی زیادہ توجہ مسلمان عورتوں پر دی جا رہی ہیں کیونکہ ان کی شخصیت مستقبل کے مسلمان معاشرے کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
اسلام
کے خلاف قلوب و اذہان کی جنگ میں مسلم دنیا میں کھلے امریکی و یورپی سفارت خانے کفر کے مضبوط ترین مورچے ہیں جو ترقی و تعاون کے نام سے اپنی سرگرمیوں کو مسلم معاشروں کے قلب تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانہ  ان سرگرمیوں میں کافی پیش پیش نظر آتا ہے۔ ایک طرف یہ سفارت خانہ افغانستان و پاکستان میں جاری اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا علاقائی صدر دفتر بنا ہوا اور دوسری طرف پاکستان میں سیاسی، ابلاغاتی، تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کو بھی یہی سفارت خانہ براہِ راست کنٹرول کر رہا ہے۔
تعلیمی میدان میں دیکھا جاۓ تو نصاب کی مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کے پروگرام امریکی سرپرستی میں طے پا رہے ہیں۔  حال ہی میں امریکہ نے یونیورسٹی آف ہزارہ، مانسہرہ میں ڈیڑھ ملین ڈالر کی لاگت سے فیکلٹی آف ایجوکیشن قائم کی۔ اگلے دو سالوں میں ۱۵ ملین ڈالر کی لاگت سے پاکستان بھر میں ایسی سات فیکلٹیز مزید قائم کی جائیں گی۔ اسی طرح پاکستانی نوجوانوں کے لیے امریکہ میں تعلیم کے لیے وظائف کا اجراء   کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے فُل برائٹ سکالرشپ کے علاوہ   یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام (YES)، نوجوانوں کے تبادلے اور مطالعاتی کینیڈی لوگر  پروگرام کے تحت ہر سال سو لڑکوں اور لڑکیوں کو ہائی سکول کی تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔  وظیفہ حاصل کرنے والے طلباء میں لڑکیوں کا تناسب ۶۰ فیصد ہے اس کے علاوہ سندھ اور خیبر پختونخواہ سے زیادہ امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں تا کہ یہ خطے بھی امریکی "جدّت پسندی" سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والے راولپنڈی کے نوجوان عرفان طاہر نے کہا کہ اس پروگرام میں حصہ لینے کے بعد اس کا تصور تبدیل ہو گیا ہے۔امریکہ میں رہنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ تمام امریکی پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں لیکن اب میں جانتا ہوں کہ وہ مخلص اور وفادار لوگ ہیں۔ میرے خیال میں امریکی مہم براۓ تعلیم کے مقصد کو واضح کرنے کے لیے یہ جملہ کافی ہے۔   پولیس، بیوروکریسی، فوجی افسران کی تربیت کے پروگرام اس کے علاوہ ہیں جس کے اثرات یہ ہیں کہ پوری ریاستی مشینری امریکی مفادات کے تحفظ میں صرف ہو رہی ہے۔

ثقافتی میدان میں دیکھا جاۓ تو امریکہ اپنی عریاں تہذیب کو نہ صرف میڈیا کے ذریعے ہمارے گھروں میں متعارف کروانے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے بلکہ امریکی سفارت خانے کے تحت پاکستان بھر میں وقتا فوقتا موسیقی کی محفلیں اور فیشن شوز منعقد کرواۓ جا رہے ہیں۔ امریکی جاز بینڈ ایری رولینڈ کوارٹیٹ کی پاکستان میں نیشنل کونسل آف آرٹس میں آمد، ہپ ہاپ گروپ ایف ای ڈبلیو کولیکٹو کا اسلام آباد میں اپنے عریاں فن کا مظاہرہ، فاطمہ جناح یونیورسٹی میں  ڈلے مے بلیو گراس بینڈ کا میوزیکل کنسرٹ، سٹوجز براس بینڈ کا بحریہ یونیورسٹی میں مظاہرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔  سفارت خانے سے شائع ہونے والے رسالےخبر و نظر میں مارک ای ایسٹرو،  منیجینگ ایڈیٹر و پریس اتاشی  نے ان اقدامات کو ثقافتی سفارت کاری کا نام دیا جو کہ بالکل بجا بات ہے۔
عورتوں کے حوالے سے کام کو دیکھا جاۓ تو سب سے خطرناک منظر سامنے آتا ہے۔  امریکی سفارت خانے کی جانب سے ملک بھر میں فیملی لیٹریسی سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جہاں عورتوں کو خاندانی منصوبہ بندی،  اولاد کی تربیت جیسے امور کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح جنسی ہمسری کے پروگرام کا اجراء کیا گیا ہے جس کا مقصد عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا، یعنی مسلم معاشرے کی فطری ترتیب و توازن کو الٹنا ہے۔   اس سلسلے میں سکول کے بچوں تک کی ذہن سازی کے لیے وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میں اور میرے دوست کے نامسے بچوں کے لیے ایک کارٹون ڈرامہ بنایا گیا ہے۔ ڈرامے کی کہانی مڈل سکول کے ان بچوں  اور بچیوں سے متعلق ہے جو مل کر جنسی ہمسری کی مہم چلا رہے ہیں۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات سے بغاوت کرتے ہوۓ بے پردہ ہونے والی والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ایوارڈ تفویض کیا گیا ہے جس کا نام حوصلہ مند خواتین کا ایوارڈرکھا گیا ہے۔
دورِ حاضر کے مؤثر ترین ہتھیار، میڈیا  کے حوالے سے بھی پاکستان میں امریکی سفار خانہ نہایت سرگرم ہے۔ صحافیوں کے لیے باقاعدہ تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔  امریکی سفیر نے ۲۰۱۲ کو پاکستان میں میڈیا کا سال قرار دیا تھا اور اس حوالے سے میڈیا کے لیے بھاری بھر کم امداد کا اعلان بھی کیا گیا۔ ریڈیو کے بعد ابھی ٹی وی چینلز پر وائس آف امریکا پروگرام کا آغاز اور میڈیا پر امریکی سفارت خانے کے اشتہاروں پر مبنی نشریات سے امریکہ کی اس طرف توجہ اور پاکستانی میڈیا پر امریکی اثر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔خطے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے پیشِ نظر صحافت میں پاک امریکا فنی تعاون کے پروگرام کے تحت ایک سو اٹھائیس پاکستانی صحافیوں کو امریکی سفارت خانے نے امریکہ میں صحافتی کورس اور انٹرن شپ کے لیے وظائف دئیے۔ اس ذیل میں امریکی سفارت خانے میں موجیں اڑاتے معروف صحافیوں کی تصویروں کا قصہ تو خاصا عام ہے۔

اسی طرح پاکستان میں مذہبی حلقوں کی مانیٹرنگ اور ان حلقوں میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے سلسلے میں بھی امریکی سفارت خانے کی سرگرمیاں قابلِ ذکر ہیں۔ امریکی ایک طرف پاکستان میں مشرک اور بدعتی طبقات کی پشت پناہی کرتے نظر آتے ہیں جیسا کہ فیصل آباد کے پیر لاثانی سرکار، امام بری دربار اور   مزار عید گاہ شریف راوالپنڈی کے پیر نقیب الرحمٰن وغیرہ سے امریکی سفارت خانے کے مراسم سے ظاہر ہوتا ہے۔ سنّی تحریک جو طالبان کے خلاف مہم میں سر فہرست رہی ہے ان کو بھی فنڈز کی فراہمی کا دروازہ امریکی سفارت خانہ ہی رہا، جیسا کہ طالبان کے خلاف جلسہ کے لیے ۳۵ ہزار ڈالر کی فراہمی کا معاملہ پکڑا گیا تھا۔ اور دوسری طرف اہلِ حق مدارس کے خلاف ان کا پروپیگنڈا وقفے وقفے سے سامنے آتا ہے۔ مدارس میں جدّت پسندی کو گھسانے اور انگریزی تعلیم کو مدارس کے طلباء کے لیے ضروری قرار دلانے میں امریکی کردار نہایت واضح ہے۔  اسی طرح مکالمہ بین المذاہب کے نام پر کانفرنسوں کا انعقاد اور تصوّف کے نام پر رقص و سرود کی محافل مسلمہ دینی عقائد کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے لیے فنڈز کی فراہمی اسی سفارت خانے کی طرف سے ہوتی ہے۔   یہاں ہم پاکستانی سیاستدانوں کے امریکی سفارت خانے سے تعلقات کا ذکر اس وجہ سے نہیں کر رہے کہ یہ قصہ پہلے ہی سے معروف و مشہور ہے۔


حال میں ۱۸ ایکڑ اراضی پر اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے  کی توسیع، ۳۳۰ امریکی میرین فوجیوں کے لیے سہولیات کی فراہمی، عملے کی تعداد میں ایک ہزار کا اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب کی طرح افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بھی یہ عمارت خطے میں اسلام کی بیخ کنی کی کوششوں اور امریکی مفادات کے حصول کے لیے سب سے اہم مورچہ اور پاکستان میں دندناتے سی آئی اے اور بلیک واٹر کے اہلکاروں کی پشت پناہ ثابت ہو گی۔   ایسی صورتحال میں ذہن ان دانشمندوں کی طرف جاتا ہے جو سفارتی تحفظ کے نام پر امریکی سفارت خانے اور اس کے اہلکاروں کی حرمت کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں۔ یا للعجب! 
امریکا اسلام کے خلاف عالمی جنگ میں اپنے کھربوں ڈالر گنوا چکا ہے، اس کی معیشت روز بروز گرتی جا رہی ہے، بینک اور کمپنیاں دیوالیہ ہو رہے ہیں، بے روزگاری اور قرض بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی سفارت خانہ درج بالا شعبوں کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز کی فراہمی یقینی بناۓ ہوۓ ہے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ امریکا اسلامی نظام کے قیام کو روکنے اورروشن خیال اسلام متعارف کرانے کو اپنے نظام اور تہذیب کی بقا کے لیے کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ یہ سب کچھ جان لینے کے بعد ایک سوال ان تمام حضرات کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو امریکا کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن مانتے ہیں کہ کیا محض مذمتی قراردادوں، دھواں دار تقریروں اور جذباتی نعروں سے ہم اسلام کے خلاف جاری اس جنگ کو روک سکتے ہیں؟ کیا آج بھی کوئی یہ توقع کر سکتا ہے کہ ہماری یہ نرم نرم مزاحمت، جس کا ڈھنگ بھی ہمیں مغرب ہی نے سکھایا ہے، اسلام کے خلاف امریکی سرگرمیوں کو معطل کر سکتی ہے؟  اگر ہم واقعی اپنی جانوں، اپنی زمین اور اسلام کے دفاع میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں امریکا کے خلاف جاری عالمی جہادی تحریک ہی کا جزو بن جانا چاہیے جس کا اعلان شہید قائد اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے کیا تھا اور جس کی قربانیوں کے عوض آج امریکی ہیبت کا بُت زمین بوس ہو رہا ہے۔  تا کہ مسلمانوں کے مال، جان، عزت،   اراضی اور دین پر قائم امریکی قبضہ ختم ہو۔ ہم پر مسلط امریکی ایجنٹ حکمران معزول ہوں اور پھر سے خلافتِ اسلامیہ کا قیام عمل میں آسکے۔

1 comment:

  1. یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نا ہوتا
    افسوس کہ فرعون کو کالج کی نا سوجھی

    ReplyDelete

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں