Wednesday, February 13, 2013

تمہیں کون سا پیکیج چاہیے؟


عبد اللہ حفیظ


پاکستان میں بسنے والے پڑھے لکھے طبقے، یعنی اس طبقے جس سے کسی مثبت پیش رفت، اچھی تبدیلی اور قوم کی حالت سنوارنے کی توقع کی جاتی ہے، کی نفسیات کو سمجھنا ہو تو کسی بھی طالبعلم کی کالج سے یونیورسٹی اور پھر وہاں سے عملی زندگی کی کہانی دیکھی جا سکتی ہے۔ اپنی پڑھائی کے دنوں میں  اور پھر اس کے بعد ان گنت نوجوانوں کو قریب سے دیکھا، ان سے بات چیت ہوئی، سب کی کہانی تقریباً ایک سی ہے۔ کہانی کا آغاز کالج میں داخلہ لینے سے ہوتا ہے۔ انٹر میڈیٹ کے کسی طالب علم سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ پڑھ کر کیا کریں گے تو اس کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر، انجینیر۔۔۔۔ بن کر قوم کی خدمت کروں گا، پاکستان کا وقار بلند کروں گا۔۔۔۔وغیرہ، وغیرہ۔ یہی نوجوان جب سخت محنت کے بعد کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں پہنچتا ہے تو اسے جذبۂ  پروفیشنلزم سے تعارف حاصل ہوتا ہے۔ پہلے ایک دو سال وہ اس جذبے کو پختہ کرنے اور یونیورسٹی کے ماحول کے مطابق خود کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے یعنی لباس و لہجہ درست کرنے میں گزار دیتا ہے۔ اس کے بعد تھوڑی مزید ترقی ہوتی ہے اور یہ طالبعلم کنٹین پر بیٹھ کر ملکی و عالمی صورتحال پر سیر حاصل تجزیہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس پر ماضی کی ناکامیوں اور اب مستقبل میں اسے کامیابیوں سے بدلنے کے جذبات حاوی ہوتے ہیں۔ اور وہ بڑی گرمجوشی سے  اپنے جونئیرز کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی پڑھائی کا آخری سال شروع ہوتا ہے، صورتحال بالکل بدل جاتی ہے۔ یہ نوجوان جذبات کے دائرے سے باہر آکر سوچنا شروع کرتا ہے، اسے اپنی گذشتہ شب بیداری، یونیورسٹی کی بھاری فیسوں کی ادائیگی، والدین کی امیدیں سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ وہ اپنا آخری سال پوری لگن سے پڑھائی میں لگانے کی کوشش کرتا ہے اور اس دوران اچھی ملازمت، کوئی ملٹی نیشنل  کمپنی مل جاۓ تو زیادہ اچھا ہے، یا امریکا و یورپ کے سکالر شپ کی تلاش میں انٹرنیٹ  براؤزنگ کو بھی مستقل وقت دیتا ہے۔ یونیورسٹی کے آخری دو تین ماہ بڑے ہی عجیب گذرتے ہیں۔ چار پانچ سال سے اکٹھے اٹھنے بیٹھنے اور قوم کی حالت سنوارنے کے لیے کمر بستہ نوجوان ایک دوسرے سے چھپ کر نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں امیدواران کی زیادتی کی وجہ سے نوکری ہاتھ سے نکل نہ جاۓ۔ کیونکہ پڑھائی جتنی بھی اچھی ہو ملک میں نوکریاں انتہائی محدود ہوتی ہیں۔ ملازمتوں کے اشتہار ایک دوسرے سے چھپاۓ جاتے ہیں، یہاں تک کہ اخبار سٹینڈ پر سے صفحے غائب ہونے لگتے ہیں۔ نوکری کی تلاش اس قدر ذہنوں پر حاوی ہو جاتی ہےکہ باقی ہر غم بھول جاتا ہے۔ اب کچھ آگے چل کر جن لوگوں کو نوکری مل جاتی ہے وہ تو احباب کے سامنے کمپنی کی تعریفیں اور جاب کی لذتیں بیان کرتے رہتے ہیں اور جو بے روزگار ہوتے ہیں وہ ایک ہی دن میں ملک میں انقلاب برپا کر دینے، مظلوموں کی دادرسی اور ظالم و جابر حکمرانوں کو تختۂ دار پر لٹکانے جیسی غصے سے پُر تقریریں کر رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے سال بعد جب تمام لوگ کسی نہ کسی جگہ ایڈجسٹ ہو چکے ہوتے ہیں اس وقت اگر آپ ان سے ملیں تو ان کی ترجیح زیادہ کمانے، شادی کرنے، اہم سرٹیفیکیشنز حاصل کرنے اور اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ رہ گئیں تبدیلی و انقلاب کی باتیں تو اس میں سے اب صرف حکمرانوں،  جرنیلوں اور نظام کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا ہوتا۔ کیونکہ اس کی نظر میں اس کی دنیا تو بس چکی ہوتی ہے۔
یہ ہے پاکستان کے باصلاحیت طبقے کا لائف سائیکل! ملک کی ابتر صورتحال اور اس میں بسنے والے غریب خاندانوں کی دوہری کمریں دیکھ کر دل میں آتا ہے کہ کاش کوئی ایسا مژدہ سامنے آۓ جو اس طبقے کو ذات کے حصار سے باہر کھینچ لاۓ۔ پاکستان اگر کافی نہیں تو کاش دنیا بھر میں کٹتے گرتے مسلمانوں کے جسم ان کو جھنجھوڑ پائیں۔ کاش فلسطین، عراق ، افغانستان کے کسی شہید کے خون کے چھینٹے اس کی آنکھوں کو نیند سے جگا دیں۔ کاش یہ لوگ عرب انقلابات اور ان میں بلند ہونے والے نعروں سے جاگ جائیں۔جاگ جانےاور مظلوم امت کے لیے کچھ کرنے کی وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن کاش۔۔۔۔ کہ کوئی اٹھ جاۓ۔ شام میں بشار الاسد نصیری کے ظلم کے خلاف گردنیں کٹواتے مسلمان یاد آگئے۔ شام میں جب حکومت کے خلاف لوگ نکلنا شروع ہوۓ تو بہت سے لوگ سڑک کے کنارے کھڑے مظاہرین کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔ مظاہرین انہیں مخاطب کر کے نعرہ لگاتے کہ ’’ ہمارے ساتھ آ ملنے کے لیے تم اور کتنے لوگوں کا خون چاہتے ہو؟‘‘ میں بھی آج یہی سوال کرتا ہوں کہ بتاؤ امّتِ مسلمہ کا دکھ بانٹنے اور ان کے لیے کھڑے ہونے کے لیے تمہاری کیا ’’ڈیمانڈ‘‘ ہے؟ تمہیں کیا ‘‘پیکج’’ چاہیے؟  

---------------------

1 comment:

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں