Sunday, March 10, 2013

لا دینیت کے داعی____ مسلمان معاشرے کے لیے بڑا خطرہ



تحریر: عبداللہ حفیظ
خلافت کے خاتمے اور پھر پے در پے باطل نظاموں-نو آبادیاتی نظام، روسی کمیونزم اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام -کے تسلط نے امتِ مسلمہ میں سے ایک طبقے کےذہن کو باطل نظریات سے اس قدر کثیف کر دیا ہے کہ ان کے یہاں معیارات، اصطلاحات و تشریحات تک بدل کر رہ گئیں۔ وہ امت جس کے لئے چودہ سو سال تک آئین صرف آئینِ پیغمبری ہی تھا جس کے مصادر بالاِجماع قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس ہی رہے،آج یہ طبقہ ہر خطے میں ایسے جدید آئین کی تلاش میں سرگرداں ہے جو ان کو’ترقی‘ کی اوج تک پہنچا دے۔جس امت نےرومیوں، فارسیوں اور مشرکین کے تخلیق کردہ عہدِ جاہلیت کو منزّہ عقائد، منوّر علم،  روشن اقدار اوراخلاق و عبادات میں للٰہیت سے تبدیل کر کے رکھ دیا آج اسی امت میں سے افراد اپنے لیے مغرب سے چراغ ادھار مانگ رہے ہیں۔ جس امت کو اللہ تعالیٰ نے نبیٔ  امیﷺ سے نوازا ،جنہوں نے انسان کو اس کا درست مقام دکھایا، جن کی وجہ سے ایمان لانے والے اس قدر بلند ہو گئے کہ دورِ جاہلیت میں محض ایک حبشی غلام سمجھے جانے والے بلالؓ فتح مکہ کےروز بیت اللہ کی چھت پر کھڑے اذان کہہ رہے تھے،  آج اسی میں سے لوگ نکل نکل کر اہلِ کفر کے در پر جا بیٹھے ہیں۔ حالانکہ اہلِ مغرب کا حال تو یہ ہے کہقد ضلوا من قبل وأضلوا كثيرا وضلوا عن سواء السبيل(وہگمراہ ہو چکے پہلے اور گمراہ کر گئے بہتوں کو اور بہک گئے سیدھی راہ سے)۔

اہلِ کفر سے براہِ راست متاثر اس طبقے نے امت کی زبوں حالی میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ کفار کے عسکری و فکری منصوبہ جات کی مسلمان خطوں میں درآمد اسی طبقے کی مرہونِ منت ہے۔ جمہوریت پر منعقد ہونے والی کانفرنسیں ہوں، بہبودِ آبادی(دراصل تحدیدِ آبادی) کے پروگرام ہوں، غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) کا جال ہو، میڈیا پر بے حیائی کی مہم ہو، مدارس و علماء کے خلاف پروپیگنڈا ہو، نفاذِ شریعت کے خلاف ریلیاں ہوں،  تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو سیکولر بنانے کی سازشیں ہوں، بلیک واٹر جیسے دجال کے لشکروں کو ٹھکانے مہیا کرنے کا کام ہو۔۔۔۔ غرض اس طرح کی تمام سرگرمیوں میں یہی طبقہ ملوث ملتا ہے۔ لال مسجد کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد تو اس طبقے نے علی الاعلان اپنے بغض کا اظہار شروع کر دیا ہے۔امریکی اور یورپی فنڈز پر پلنے والے اس طبقے نے قرآن پڑھنے والی امت ہی کی سڑکوں پر شریعت سے آزادی کے نعرے لگاۓ، چینلوں پر برملا علماۓ کرام اور حدود اللہ پر کیچڑ اچھالنی شروع کی، شعائرِ اسلامی کی توہین پر مبنی فلمیں بننا شروع ہوئیں، برقعہ، پگڑی، داڑھی کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ جہاد فی سبیل اللہ کو فساد ثابت کرنے اور اس کو باطل ٹھہرانے کے لیے کتنی ہی چرب زبانوں کو اپنے یہاں نوکر کیا ۔
بالاصل تو یہ ٹولہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ان کی باقاعدہ صف بندی سول سوسائٹی، این جی اوز، میڈیا  وغیرہ میں دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ سیاست اور فوج کے افسروں  میں ایک تعداد ہے جو نظریاتی طور پر لا دین ہے لیکن ابلاغ کے ذرائع تک رسائی، بے پناہ وسائل اور عرصہ کی محنت کے باعث اس طبقے کی سرگرمیوں نے آج مسلمان معاشروں میں علماء کا وہ احترام باقی نہیں رہنے دیاجو شریعت میں مطلوب ہے۔وہ علماء جو انبیاء کے وراث ہیں، جنہوں نے امت کو ہر فتنے سے محفوظ رکھا اور ہر مشکل دور میں امت کی رہنمائی کی، آج ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان بڑی آسانی سے ان کو تنقید کا نشانہ بنا دیتا ہے، الّاما شاء اللہ۔ یہ تو ایک امر ہے، ان لوگوں کی سرگرمیوں نے تو عقائد و عبادات، اخلاق و اقدار، عزت و عفت، غیرت و حمیت سب چیزیں ہی متاثر کر دی ہیں۔عفت و حیا کی علامت، عورت کو حقوق نسواں اور آزادی کے نام پر بازار میں لا کھڑا کیا ہے۔  انہی کی وجہ سے مسلمان خطے مغربی تہذیب میں رنگے نظر آتے ہیں۔
آج جب عالمی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے اور اسلام کے غلبے کا آغاز ہوا چاہتا ہے تو عین ممکن بلکہ یقینی بات ہے کہ یہی طبقہ مسلمان خطوں میں سرمایہ دارانہ نظام سے بیزار، سیاستدانوں سے تنگ،  اور اپنے حقوق کی خاطر اٹھنے والی تحریکوں کو اپنے فطری مقام اسلام کی بجاۓ  لادینیت کی کسی اور شکل میں پھنسانے کی کوشش کرے گا۔ جیسا کہ مصر، تیونس، الجزائر وغیرہ میں حالیہ مظاہروں کے درمیان دیکھنے کو ملا کہ ہر مظاہرے میں سول سوسائٹی کے چند افراد شامل ہو کر پورے مظاہرے کو اپنے نام کروا لیتے۔ جاننا چاہیے کہ یہ محض مفادات کی خاطر جمع چند حریص افراد کا ٹولہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی فرقہ ہے جو اپنی اصطلاحات، اپنے مفاہیم اورخاص نظریات رکھتا ہے۔ جن کے ہاں آزادی کا مطلب وہ نہیں جو حضرت ربعی بن عامرؓ نے رستم کو سمجھایا تھا کہ لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد( کہ بندے  بندوں کی بندگی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہو جائیں)۔ بلکہ یہ تو انسان ہی کی الوہیت کے قائل ہیں اور شرعی ضابطے سے علیحدگی کو آزادی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوۓ میزان اوراللہ تعالیٰ کے قائم کردہ عدل کے برخلاف مساوات کے نام سے اپنی اصطلاح اور اس کی ایسی تعبیر رکھتے ہیں جس کو با حیا معاشرے سننے سے بھی عار کھائیں۔ ایک مسلمان کی سعی کا محور تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے آگے  کھڑے ہونے کا خوف اور آخرت کی کامیابی کا حصول ہوتا ہے لیکن یہ طبقہ تو اس عقیدے کے ساتھ استہزاء کرتا ہے اور دنیا کی مختصر زندگی ہی کو کل سمجھتا ہے۔ والعیاذ باللہ! لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنے افکار کو واضح طور پر اسلام سے متصادم دین کے طور پر پیش نہیں کرتے۔ ان کے نام ہمارے ہی ناموں جیسے اور نسبت بھی ہمارے ہی علاقوں سے ہے۔ اس لیے یہ بڑی آسانی سے اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔اور یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اس گروہ میں روافض اور قادیانیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جن کا اول و آخر مقصد ہی اہلِ سنت کے دین حنیف میں نقب لگانا اور اہلِ سنت علماء و عوام کو نقصان پہنچانا ہے۔اس لیےنہایت ضروری ہے کہ لا دینیت کے افکار و نظریات کا ابطال کیا جاۓ، معاشرے میں پھیلی ان کی جڑوں کو کاٹا جاۓ، مہاجر کیمپوں، سیلاب زدہ علاقوں، دور دراز کے پہاڑی علاقوںمیں ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاۓ، پوش علاقوں میں واقع ان کے دفاتر غرض ہر جگہ ان کا پیچھا کیا جاۓ، ان کی عسکری شاخوں کا کھوج لگایا جاۓاور ان لوگوں کے باطل افکار کا مقابلہ قرآن و احادیث کے دلائل و براہین سے کیا جاۓ یہاں تک کہ اس گروہ کے سامنے واضح ہو جاۓ کہ قل ان ھدی اللہ ھو الھدی(کہہ دیجیے کہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی درحقیقت ہدایت ہے)۔
_______

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔