Tuesday, January 15, 2013

نیا آرمی ڈاکٹرائن اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت


تحریر: منصور فاتح
پاکستان آرمی کی طرف سے نئے ڈاکٹرائن کی اشاعت کے تین روز بعد ہی کشمیر سے ملحقہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی طرف سے نئی چوکیوں کی تعمیر کے تنازعہ پر دو طرفہ فائرنگ اور اس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے دو دو فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پاکستان آرمی کی نئی حکمتِ عملی اور خطے کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم ترین سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نیا آرمی ڈاکٹرائن اپنی اشاعت کے ساتھ ہی ناکام ہو گیا؟ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی آرمی اپنے ملک میں جاری نفاذِ شریعت کی تحریک کو کچلنا اپنا مقصدِ اصلی قرار دے چکی ہے، بھارتی فوج کی طرف سے ایسے اقدامات کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ تیسرا اہم سوال مسلمانانِ پاکستان کے لیے یہ ہے کہ ان حالات کے تناظر میں ہمیں پاکستان کے مستقبل کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو بھارتی فوج کے حالیہ اقدامات اور پھر بھارتی فضائیہ کے چیف این اے کے برونی کی 'دوسرے آپشنز' استعمال کرنے کی دھمکی نے آرمی ڈاکٹرائن کو ناکام نہیں کیا بلکہ پہلے سے ناکام اس ڈاکٹرائن میں موجود بہت بڑے سَقَم اور کمزوری کو صاف ظاہر کیا ہے۔ یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ذہنوں میں رچی بسی پاکستان دشمنی کو ڈھول کی تھاپ پر تھر تھرانے والے ثقافتی طائفے، فلمی اداکار اور امن کی آشا جیسی میڈیا مہمات ختم نہیں کر سکتی۔ نہ ہی امریکی اشاروں پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی سیاسی قیادتیں دشمنی کے پینسٹھ بلکہ صحیح معنی میں تیرہ سو  سالہ نقوش مٹا سکتی ہیں اور نہ ہی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے،امریکی احکامات پر گردن جھکانے والے فوجی جرنیلوں کی تبدیلیٔ پالیسی سے مسلمانوں کے خلاف ہندو بغض ختم ہو سکتا ہے   اور پھر پانی اور کشمیر جیسے نا گزیر مسائل کے ہوتے ہوۓ دوستی کا مطلب ہی کیا؟ ان سب وجوہات کو پسِ پشت ڈالتے ہوۓ قرآن پر ایمان رکھنے والے بندۂ مومن کے لیے تو صرف اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا )) یقیناً تم ایمان والوں کا سب سے بڑا دشمن یہودیوں اور مشرکین کو پاؤ گے (مائدۃ:۸۲)( اور اسی طرح بھارت کے ساتھ دوستی کے بعد نبیﷺ کی زبانِ اطہر سے غزوۂ ہند میں شریک مجاہدین کے لیے آگ سے آزادی کی بشارت چہ معنی دارد؟ ان سب وجوہات کو سامنے رکھتے ہوۓ اگر کوئی فوج بھارت کی بجاۓ طالبان کو اصل چیلنج قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تنخواہ دار ملازمین کی بجاۓ ایسے مجاہدین کو ہندو مشرکین کے خلاف صف آرا کرنے کی ہے جن کا موٹو حقیقت میں ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہو۔

دوسرا سوال کہ جب پاکستان کی آرمی اپنے ملک میں جاری نفاذِ شریعت کی تحریک کو کچلنا اپنا مقصدِ اصلی قرار دے چکی ہے، بھارتی فوج کی طرف سے ایسے اقدامات کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ اس بابت نظر یہی آتا ہے کہ بھارت پاکستان کے داخلی انتشار کا ادارک کرتے ہوۓ اس کے ریاستی اداروں، سرِ فہرست آرمی سے اپنی برتری تسلیم کروانا چاہتا ہے۔ تا کہ وہ مستقبل کی جنگ میں پاکستانی حکومت کو اسی طرح ڈکٹیٹ کر سکے جس طرح اسلام کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کرتا چلا آرہا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ خراسان اور ہند جن تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں ان کے نتیجے میں جہادی تحریک مضبوط تر ہو گی اور اس کا دائرہ عمل عنقریب مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ممبیٔ حملے اور پُونا میں جرمن بیکری پر یہودیوں کی ہلاکتیں مستقبل کے بھارتی اندیشوں کو سچ ثابت کرتے ہیں۔ اس لیے اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ پاکستان کی ریاستی مشینری کو اپنے استعمال میں لے آۓ۔ اس مقصد کے لیے جہاں ایک طرف مغربی سرحد پر مجاہدینِ طالبان کے ساتھ جنگ میں امریکہ سے بڑھ کر نقصان اٹھانے والی پاکستانی آرمی کو مشرقی سرحد پر کمزوری کا احساس دلایا جا رہا ہے وہیں ثقافتی، سیاسی اور معاشی سطح پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔       ایک طرف بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر زبردستی تنصیبات تعمیر کر رہی ہے حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان دس سال پرانے جنگ بندی معاہدے کے تحت وہاں کسی طرح کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔ اور جواباً  بھارتی جرنیل اقوامِ متحدہ کے آبزرور گروپ کی افادیت سے کلیتا انکار کرتے ہوۓ پاکستان کو سنگین کارروائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی سیاسی قیادت نہایت محتاط انداز میں پاکستان کے موجودہ داخلی بحران کو مدِّ نظر رکھتے ہوۓ تجارتی و ثقافتی تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزا کا نیا معاہدہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق پندرہ جنوری سے ہی عمل میں آئے گا۔ اس طرح اس واقعے کے بعد ہی یہ اعلان بھی کیا گیا کہ بھارت صحافیوں کو ایک سے زائد ویزے جاری کرنے پر غور کر رہا ہے۔ جبکہ وزیر خزانہ پی چدامبرم نے کہا کہ ہم اس معاملے کو بین الاقوامی رنگ دینے یا اقوام متحدہ سے تفتیش کرانے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ یہ مطالبہ ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ مسٹر چدامبرم نے کہا کہ ' جو کچھ ہوا ہے اسے ہم بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔۔۔جو کچھ کیا جانا ہے وہ کیا جائے گا'۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید ایک طرف تعلقات کی مضبوطی کی دعوت دے رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دونوں ممالک نے حالات بہتر کرنے کی جو کوشش کی ہے اس پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ان حالات میں تیسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے بارے میں فکر مند طبقات کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟  اس بارے میں سب سے بنیادی چیز وطنیت کے جذباتی نعروں اور اس بنیاد پر ہمدردیاں سمیٹ کر اغیار کے ایجنڈے پر چلنے والوں سے آزاد ہو کرملک کی موجودہ حالت کا جائزہ لیا جاۓ۔ داخلی سطح پر ان افراد اور اداروں کی نشاندہی کی جاۓ جو فوجی، معاشی، ثقافتی، نشریاتی، سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی سطح پر امریکی و بھارتی ایجنڈوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ ایسی تمام مہمات کا سدِّ باب کیا جاۓ اور امریکہ کے عطا کردہ نظامِ جمہوریت کو تین طلاق دیتے ہوۓ یہاں نظامِ شریعت قائم کیا جاۓ۔ کیونکہ تمام تر فساد کی اصل وجہ تو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی ہے۔ اسی طرح خارجی سطح پر طالبان کو افغانستان میں تزویراتی گہرائی Strategic Depth کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی کی بجاۓ انہیں دین میں اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہوۓ ان سے  ماضی کی زیادتیوں پر معافی مانگی جاۓ اور کلمہ کی بنیاد پر ان سے ایسا اتحاد قائم کیا جاۓ جو حقیقتا اسلام کو خطے کی وہ قوت بنا دے جس کے ہاتھوں ہند کے حکمران بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے۔ یقیناً موجودہ مقتدر طبقوں کو یہ کام نا قابلِ عمل اور اپنے خلاف ایک سازش محسوس ہو گا لیکن بطور مسلمان یہ کام ہر ہر پاکستانی کے ذمے بھی ہے اور یہی بحرانوں سے نکلنے کا راستہ۔

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔