Thursday, January 10, 2013

آرمی ڈاکٹرائن میں گذشتہ تبدیلی کاحالیہ اعلان


تحریر: منصور فاتح
چند سطروں کے اضافے کے ساتھ
قومی سلامتی، قومی تحفظ اور قومی مفاد ایسے ایشوز ہیں جن کوکسی بھی قوم میں موجود داخلی انتشار کے خاتمے اوروحدتِ فکر پیدا کرنے کے لیےبھی  استعمال کیا جاتا رہاہے اور اسے کسی متفقہ دشمن کے خلاف تیاری یا تیز رفتار صنعتی و معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بنایا جاتا رہا۔ یورپ کی فاشسٹ حکومتوں میں یہ پہلو بہت ہی نمایاں رہا۔ لیکن اس کے برخلاف ان ایشوز کو استعمال کرنے کی ایک مثال وہ ہے جو پاکستان میں فوج کے ادارے نے قائم کی۔ پاکستان کے فوجی حلقوں کی جانب سے یہ اصطلاحات مسلسل پینسٹھ سال سے استعمال کی جارہی ہیں لیکن اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ فوج نے قوم کے سامنے ان اصطلاحات کا استعمال کر کے جو مقاصد پورے کیے وہ قوم کے مفاد میں نہیں بلکہ خود اس ادارے اور اس کے سرکردہ افسران کے حق میں تھے۔
 فوج نے شروع روز ہی سے مشرقی سرحد کو پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف خطرہ قرار دیا اور  مکار ہندو بنیے کے خلاف جہاد،    مشرقی سرحد کی حفاظت اور کشمیر کی آزادی کو اپنے آرمی ڈاکٹرائن کی بنیاد بنا لیا۔ یہ مسائل یقیناً ایسے ہی ہیں جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے لیکن اعتراض اس چیز پر ہے کہ پینسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی یہ مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ اب تو بھارت دفاعی و معاشی لحاظ سے اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجا تو پاکستانی فوج کا سپہ سالار قوم سے صرف یہی کہ سکے گا کہ"جب طوفان چل رہا ہو تو سر نیچے کر لینا چاہیے کہیں سر ہی نہ اُڑ جاۓ"۔ دوسری طرف اس ایشو کو استعمال کرتے ہوۓ فوج پاکستان کا سب سے امیر اور با اثر ادارہ بن گئی ہے۔ قوم کی ستر فیصد آمدن، ۴۲۲ارب روپے سالانہ، اس کے پیٹ میں جا رہی ہے۔ اس آمدنی کے سر پر آج فوج پاکستان کی سب سے بڑی کارپوریشن کا روپ دھار چکی ہے جس کی ملکیت میں فوجی و عسکری گروپ جیسے  آٹھ بڑے منافع بخش ادارے ہیں اور فوجی افسران پاکستان کا طاقتور ترین طبقہ ہیں۔ملک کی کوئی بھی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہیں ہو پاتی۔

دوسرا بڑا فائدہ جو فوج نے ان ایشوز کو استعمال کرتے ہوۓ اٹھایا وہ اقتدار پربار ہا براہِ  راست قبضہ ہے۔ مشرف تک اقتدار پر قبضہ کرنے والے ہر فوجی جرنیل نے اپنے فعل کا یہی جواز پیش کیا کہ میں نے یہ اقدام ملکی مفاد میں اٹھایا ہے اور اس طرح پاکستان کی آدھی تاریخ اس ادارے کی نظر ہوگئی۔ اس کے بعد تیسرا بڑا مقصد جو فوج کے ادارے نے ان ایشوز کو استعمال کرتے ہوۓ حاصل کیا وہ اسلام کے خلاف امریکہ کی قیادت میں منظم صلیبی اتحاد کے مفادات کا تحفظ ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان پر عالمی جارحیت کے روزِ اول سے پاکستان آرمی کا ڈاکٹرائن امریکی دھمکی کے زیرِ اثر تبدیل ہو گیا تھا اور آرمی نےصدر  بُش کی دھمکی کے جواب میں مجاہدینِ طالبان کے خلاف جنگ میں اترنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا۔ بعد میں جوں جوں حالات بدلتے گئے توں توں امریکی دباؤ کے زیرِ اثر یہ فوج مجاہدین کے خلاف جنگ میں مزید اترتی چلی گئی۔ فوج کی جانب سے اس جنگ کا آغاز سقوطِ امارتِ اسلامیہ کے دوران افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے نہتے مہاجر مجاہدین کے خلاف چھوٹے آپریشنز سے ہوا جن میں کوہاٹ میں عرب مجاہدین کے خلاف آپریشن کو میڈیا میں بھی کوریج ملی۔ پھر جب وزیرستان میں اکٹھے ہونے والے مجاہدین کی جانب سے امریکی افواج پر افغانستان میں حملے بڑھے تو ۲۰۰۳ کے اواخر میں پاکستانی فوج باقاعدہ آپریشن کے لیے وانا جا گھسی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان مجاہدینِ طالبان کے ساتھ باقاعدہ جنگ میں اترا ہوا ہے اور اس کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد دستے اس وقت قبائل میں حالتِ جنگ میں ہیں۔ یقیناً امریکہ کے لیے یہ صورتحال نہایت خوش آئند ہے۔ کیونکہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کے عوض ۷ لاکھ افراد پر مشتمل مسلمان معاشرے ہی سے بننے والی فوج اسلام کے خلاف جنگ میں استعمال ہو رہی ہے اور "ازلی دشمن" بھارت اب ان کے نزدیک ایک دوست ملک بننے جا رہا ہے۔
مجاہدین کے خلاف اس جنگ کو با ضابطہ طور پر آرمی کا ڈاکٹرائن قرار دینا شروع میں آسان امر نہ تھا۔ اس لیے ابتدا میں یہی کہا جاتا رہا کہ قبائل میں بھارتی ایجنٹ گس آۓ ہیں جن کے ختنے بھی نہیں ہیں اور وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں، افغانستان میں موجود بھارتی سفارتخانہ نے ٹریننگ کیمپ کھول رکھے ہیں جو پاکستان میں مداخلت کروا رہے ہیں۔ اس طرح ایک سپاہی سے لے کر عام پاکستانی کے سامنے یہ ادارہ اپنے اقدام کا جھوٹا جواز فراہم کرتا رہا۔ لیکن پاکستان کی فوج کو یہ امید  نہ تھی کہ اس جنگ کے نتیجے میں خود پاکستان میں نفاذِ شریعت کی تحریک کھڑی ہو جاۓ گی اور قبائل میں موجود مجاہدین کی قوت دبنے کے بجاۓ بڑھتی چلی جاۓ گی اور یہ امکانات پیدا ہو جائیں گے امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی شرعی نظام نافذ ہو جاۓ گا۔ آج جب حالات یہاں تک پہنچ گئے تو عسکری پالیسی سازوں کو جو بنیادی طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ہمیں چٹائی پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے طالبان کا نظام نہیں چاہیے، ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک عام فوجی کی ذہن سازی اور میڈیا کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوۓ عوامی حمایت کے حصول کے لیے ایک واضح اعلانیہ پالیسی سامنے آۓ۔ جس کو تمام تر سیاسی فیصلوں، میڈیا مہم، اور فوجی سرگرمیوں کے جواز کا محور قرار دیا جا سکے۔ لہٰذا اب طالبان کو پاکستان کے امن اور سلامتی کے لیے بنیادی خطرہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت آئندہ دنوں میں میڈیا پر طالبانِ پاکستان کے خلاف شدید ترین مہم کے امکانات ہیں۔ کیونکہ عوام کے سامنے اس پالیسی کا اعلان اس بات کی نشاندہی ہے کہ فوجی قیادت طالبان کےخلاف جنگ میں فتح کے حصول کے لیے عوامی حمایت کو مرکزی جزو قرار دے چکی ہے اور اس کا اظہار جنرل کیانی کے گذشتہ بیانات میں بارہا ہوا ہے۔     
آرمی کی طرف سےنظامِ شریعت کے لیے مصروفِ عمل مجاہدین کے خلاف جنگ کے برملا اعلان کی اس حکمتِ عملی کو بنظرِ غائر دیکھا جاۓ تو پتہ چلتا ہے کہ اس پوری حکمت عملی کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ پاکستان کے عوام نِرے   کالاِنعام(بھیڑ بکریاں) ہیں، جنہیں وطنیت کے جذباتی نعروں، اور میڈیا کے جال کے ذریعے بآسانی رام کیا جا سکتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ماضی میں سوات اور قبائل میں فوجی آپریشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیے گئے اقدام جرنیلوں کے اس مفروضے کی تا ئید کرتے ہیں۔ اب پاکستان کے اہلِ حق علماء، دیندار طبقات اور مجاہدین کے لیے بنیادی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ عوام تک حالات و احکام کی درست رسائی کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ معاشرے کی بنیادی ترین سطح یعنی مسجد اور گھر تک حق کی دعوت دیں۔ وطنیت کے مشرکانہ نظریہ کا رد کریں، نظام شریعت کے وجوب اور اس کے محاسن کو بیان کریں، کفریہ جمہوری نظام نے کس طرح یہاں کی عوام کو گذشتہ پینسٹھ سال سے جکڑ رکھا ہے اس کو آشکار کریں اور فوج نے تقدس کی جو چادر خود پر اوڑھ رکھی ہے اس کو بالکل اسی طرح تار تار کر دیں جس طرح شام کے اہلِ ایمان نے کیا ہے۔ یقیناً نبوی دور کی طرح اب بھی مسجد اور اس کا منبر دین کی دعوت اور اس کے قیام کے لیے اہم ترین جگہیں ہیں۔ شام کی تحریک اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

1 comment:

  1. فوج، بیورو کریس، خاندانی سیاست پاکستانی قوم کے امریکی و اسرائیل سے بڑھ کر دشمن ہے۔ امریکی انڈیا و اسرائیل کی دشمنی تو سب پر عیاں ہیں لیکن یہ ادارے مخفی طریقے سے قومی ملکیت، عوامی حقوق، قومی مفادات کے سودے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے اقتدار میں اتے ہیں۔۔۔۔ یہ انتہاپسندی، شدت پسندی، دہشت گردی بنیاد پرستی وغیرہ کی اصطلاحات صرف اور اپنے ذاتی دفاع اور حکومتی عہدوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔۔۔

    ReplyDelete

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں