Friday, January 18, 2013

نصابِ حکمرانی


تحریر:عبد اللہ حفیظ
ڈگری،  ڈگری ہوتی ہے۔۔۔۔ جعلی ہو یا اصلی۔ کیونکہ جیسا نظامِ حکومت اور جس طرح کے حکمران ہمارے ہاں چلے آرہے ہیں اس کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں سے ملنے والی ڈگریاں تو ابھی تک کام آتی نہیں دیکھی گئیں۔ ان پڑھ سے ان پڑھ سیاستدان بھی ہوں یا سویلین، یا پھر  اخلاق سے قطعی محروم بوٹ، آج تک امورِ مملکت چلانے کے لیے انہیں کسی پروفیسر سے ٹیویشن پڑھنی نہیں پڑی، سواۓ  انگریزی بہتر بنانے کے لیے تھوڑی مشق کے۔ یہ بات اس لیے کہہ دی کہ ابھی تک جتنے بھی حکمران نظر آۓ،زیادہ  پڑھے لکھے بھٹو اور شوکت عزیز ہوں یا بڑی ڈگری سے محروم زرداری و نواز شریف یا پھر انٹرمیڈیٹ میں ماٹھے سے نمبر لے کر کاکول میں بوٹ زمین پر مارنے کی مشق کرنے والے جرنیل، سب کے دورِ اقتدار ہمارے سامنے ہیں۔ نہ تو بھٹو کی فی البدیہہ تقریریں کچھ کارگر نظر آتی ہیں اور نہ ہی امپورٹڈ شوکت عزیز کی معاشی میدان میں مہارتوں سے ملکی معیشت مستحکم ہو گئی۔ دوسری طرف زرداری جیسا بغیر کسی مشکل کے اتنے عرصے سے اپوزیشن اور قوم دونوں کو جھانسا دے رہا ہے اور نواز شریف بھی دو دفعہ اپنی صلاحیت کے جوہر دکھا لینے کے بعد پھر سے اپنی جگہ بنانے میں لگا ہے۔ اور جرنیل تو قومی سلامتی کے ایشو کو جس مہارت سے کیش کروا رہے ہیں اس پر بڑی بڑی سیاست والے بھی دنگ ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر انسان سوچنے لگتا ہے کہ بھائی امور مملکت چلانا تو بہت بڑی ذمہ داری ہے، دفاع، معیشت، خارجہ پالیسی، تعلیم، صنعت۔۔۔ کیسے کیسے مشکل امور پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ پرانے زمانوں میں تو چلیں اٹھان ہی اس طرز پر ہوتی تھی کہ سترہ سالہ محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہو جاتا تھا، غزنوی، غوری، ابدالی سب کے گرد ماحول اور اساتذہ ایسے ہوتے تھے جو ان کو جہاں بانی اور جہاں گیری کے لیے تیار کرتے تھے۔ لیکن اب تو ہم اس تہذیب سے دستبردار ہو کر مغرب کا نظام اپناۓ ہوۓ ہیں جس کی پیچیدگیاں اس قدر ہیں کہ بندے کو پڑھنا پڑ ہی جاتا ہے۔ پھر معاملہ کیا ہے؟ ہمارے حکمرانوں کے پاس کون سی کنجی ہے جو پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر ایک کو اقتدار کا ایک سا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس بات کا جواب امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہنے والے حسین حقانی کی امریکی اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتوں کی داستانوں سے مل گیا  جو ’’اوباماز وارز
(Obama’s Wars)‘‘ میں چھپیں۔ انتہائی پڑھے لکھے  موصوف امریکی عہدے داروں کو کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی مثال قالین فروش کی سی ہے جو پہلے پہل قالین کی قیمت بہت زیادہ بتاتا ہے لیکن پھر بہت کم قیمت پر اسے بیچ دیتا ہے اور پاکستانیوں کی مثال اس عورت کی سی ہے جس سے کچھ حاصل کرنے کے لیے مرد کو اسے کچھ دینا پڑتا ہے۔ اب بتائیں اگر ایسے ہی حکومت ہوتی ہے اور یہی ہماری اپروچ ہے تو پھر ڈگری جعلی ہو یا اصلی، کیا فرق پڑتا ہے؟ جب حکمران فیصلہ ہی یہ کرکے بیٹھے ہیں کہ ہمیں مانگ کر کھانا ہے تو پھر ضرورت تو مانگنے کے فن میں مہارت کی ہے، جب ان لوگوں نے فیصلہ ہی یہ کر رکھا ہے کہ دورِ اقتدار کو لمبا کرنے کے لیے امریکی اشیرباد حاصل کرنی ہے تو پھر سیکھنے والا فن تو چاپلوسی کا ہے، اگر ہر حکمران کرسی سنبھالتے ہی دستخط کر دے کہ تمام ملکی امور امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پائیں گے تو پھر ضرورت تو قوم کو اندھا رکھنے کے لیے جھوٹ بھولنے کا ہنر سیکھنے کی ہے۔۔۔۔ یہ سارے فنون وہ ہیں جن میں ہمارے تمام گذشتہ حکمران طاق رہے ہیں۔
ہاں مسئلہ قوم کا رہ جاتا ہے۔ کیا قوم بھی انہی لوگوں اور اسی طرزِ حکومت کو پسند کرتی ہے یا صحیح معنوں میں آزادی چاہتی ہے۔ میرے خیال میں قوم تو آزادی چاہتی ہے لیکن اس کی قیمت ادا کرنے کی ہمت نہیں پا رہی۔ کوئی ہے جو قوم کو یہ یقین دلائے کہ اگر وہ کھڑی ہو جاۓ تو ان شاء اللہ آزادی پانے کے لیے اس سے بہت کم قربانی دینا پڑے گی جتنی وہ آج دے رہی ہے؟

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔