Wednesday, July 18, 2012

انٹرویو شیخ حامد گل المصری حفظہ اللہ


                       
شیخ حامد گل المصری کا شمار شیخ اسامہؒ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔آپ کو ایک طویل عرصہ تک ایران میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد حال ہی میں رہائی نصیب ہوئی ہے۔شیخ حامد سے ہونے والی گفتگو قارئین نوائے افغان جہادکے لیے پیش خدمت ہے۔اس گفتگو میں شیخ حامد نے شیخ اسامہ کے ساتھ بیتے ہوئے ماہ وسال کا دلچسپ انداز میں تذکرہ کیا ہے۔

محترم شیخ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمارے لیے کچھ وقت نکالا تا کہ ہم اپنے قائد شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی زندگی کی کچھ جھلکیاں دیکھ سکیں۔

سوال:محترم شیخ سب سے پہلے ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے کب شیخ کی رفاقت اختیار کی؟ اور آپ کی کیا ذمہ داری تھی؟
جواب:میں نے شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی صحبت اختیار کی اور طویل عرصہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی رفاقت میں گزارا۔طویل عرصے تک شیخ اسامہ رحمہ اللہ کا کاتب رہانیز کچھ عرصے کے لیے شیخ اسامہ رحمہ اللہ کا سیکرٹری اور محافظ بھی رہا ہوں۔
سوال: شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی شخصیت اوراخلاق کے بارے میں کچھ بتائیے؟
جواب: شیخ اسامہ رحمہ اللہ دھیمے مزاج کے مالک تھے ۔متحمل مزاجی اور برد باری شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اسی طرح اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کا جذبہ بھی آپ میں بخوبی موجود تھا۔ اگر کسی بھائی کو پیسوں کی ضرورت ہوتی یا کسی کی کوئی اور ضرورت ہوتی تو شیخ اسامہ رحمہ اللہ اس کی مدد اپنی ذاتی جیب سے کیا کرتے تھے۔ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ جھوٹ نہیں بولتے تھے ، جھوٹ بولنے کو ناپسند فرماتے تھے ،اپنے ساتھیوں کو بھی اس سے منع فرماتے تھے ،جہاں جھوٹ بولنے کی شریعت میں بھی اجازت ہے وہاں بھی جھوٹ سے حتی الامکان گریز کرتے تھے اور اپنے رفقاکو بھی اسی طرح احتیا ط کرنے کی تاکید کرتے تھے جس طرح صحابہ اس ضمن میں احتیاط برتتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سفر ہجرت کے دوران جب کوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت سوال کرتا تو آپ فرماتے تھے کی یہ میرے راہبر ہیں جو مجھے راستہ بتلاتے ہیں۔ اسی طرح جب غزوہ بدر میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے کسی نے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں سے ہیں؟ تو انہوں نے اپنا علاقہ بتانے کی بجائے جواب دیا 'من المائ' یعنی 'ہم پانی سے ہیں 'کہ بندے کے اجزائے ترکیبی میں پانی ایک اہم عنصر ہے لیکن مخاطب یہ سمجھا کہ یہ ماء نامی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

سوال: شیخ اسامہ رحمہ اللہ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا برتاؤتھا؟
جواب: شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ خود بھی ساتھیوں کے ساتھ شفقت اور نرمی سے پیش آتے اور دیگر ذمہ دار ساتھیوں کو بھی نرمی برتنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ عموماً ساتھیوں کو عربی زبان کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے؛
ما وضع الرفق فی شیء الا زانہ، وما نزع من شیء الا شانہ
''کسی بھی چیز میں نرمی شامل ہو تو وہ اس کو بہترین بنا دیتی ہے اور کسی بھی چیز سے نرمی نکالی جائے یا نرمی شامل نہ کی جائے تو وہ بدترین بن جاتی ہے''
انما العلم بالتعلم و انما الحلم بالتحلم
''علم سیکھنے سے ہی آتا ہے اور بصیرت سمجھ بوجھ سے آتی ہے''
شیخ اسامہ رحمہ اللہ اپنے مجاہدساتھیوں کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک دفعہ شیخ رحمہ اللہ افغانستان کے علاقے مراد بیگ میں تھے،انہی دنوں ایک عملیہ میں کچھ ساتھی زخمی اور شہید بھی ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ ایک دن کچھ ساتھیوں کو کہیں سے ایک فٹ بال ملا تو انہوں نے فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔ جب شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے ان ساتھیوں کو فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے پوچھاکہ 'یہ ساتھی کیسے فٹ بال کھیل رہے ہیں؟'جب کہ یہاں ہمارے کچھ ساتھی زخمی اور شہید بھی ہیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کیا تم نے بھی ان کے ساتھ فٹ بال کھیلا ہے؟ میں نے جواب دیا'نہیں، مجھے شرم آ ئی (کہ میں فٹ بال کھیلوں جب کہ میرے کچھ مجاہدبھائی اس حال میں ہیں)'۔اس پر شیخ نے کہا ''زادک اللّٰہ حیاء ً ''یعنی اللہ تعالی تمہیں اور حیا دار بنائے۔ پھر فرمایا کہ جب کچھ ساتھی مشکل میں ہوں تو ہمیں ان کی تکلیف کا خیال رکھنا چاہیے۔
ایک مرتبہ ایک بھائی نے چند دیگر ساتھیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ سے کہا کہ ان ساتھیوں کی ذمہ داریاں بدل دی جائیں کہ ان ساتھیوں کے کچھ مسائل ہیں اور ان کے اوپر الزامات ہیں کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو (غالباً کسی عملیات میں)قتل کیا ہے۔تو شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے کہا '' اللہ کی قسم ہم ان ساتھیوں پر شک نہیں کر سکتے ۔یہ ہمارے مسکین ساتھی ہیں جو اپنے گھر بار چھوڑ کے برستے کروز میزائلوں اور ڈیزی کٹر بموں کی زد میں رہتے ہیں ۔ہم کیونکر ان ساتھیوں پر شک کر سکتے ہیں۔ ہم ان بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں سے نہیں ہٹائیں گے اور ہم ان کے اوپرمکمل بھروسہ رکھتے ہیں''۔

سوال:  محترم آپ کو شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے ساتھ سوڈان میں بھی کچھ وقت گزارنے کا موقع ملاہے۔سوڈان میں گزرے دنوں کا کوئی یاد گار واقعہ سنائیں ؟
جواب:
جب میں شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے محافظ کے طور پر ذمہ داریا ں نبھا رہا تھا تو انہی دنوں میں شادی کے لیے کسی مناسب رشتے کی تلاش میں تھا ۔ایک دن شیخ کی نئی گاڑی میں شیخ اسامہ رحمہ اللہ کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا تو شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے ازراہ محبت اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کرانے کی پیشکش کی لیکن میں حیا کے مارے کچھ جواب نہ دے سکا اورمیں نے سوچا کہیں میری ذات شیخ اسامہ رحمہ اللہ کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہ بن جائے۔اس کے بعد شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے بھی دوبارہ کبھی اس بات کاتذکرہ نہ کیا اور یوں یہ موقع ہاتھ سے جاتا رہا۔

سنتوں پر عمل :

شیخ اسامہ رحمہ اللہ سنتوں پر عمل کے بہت حریص تھے۔ وہ کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے کھاتے اور بہت آہستہ کھاتے تھے اور مجھے کہتے کہ دستر خوان پر میرا ساتھ دوتو میں شیخ سے کہا کرتا کہ شیخ پانچ انگلیوں سے کھانے کی بھی اجازت ہے کیونکہ جب کسی سائل نے شیخ ابن عثیمین سے پوچھا کہ چاول تین انگلیوں سے کھانے چاہئیں یا پانچ سے تو شیخ ابن عثیمین نے کہا کہ 'چاول کھانے کے لیے تو پانچ انگلیاں بھی کم معلوم ہوتی ہیں ۔اگر چھ انگلیاں ہوتی تو چھ سے کھاتے'۔مگر شیخ نے ہمیشہ اس سنت کا التزام کیا اور کھانا تین انگلیوں سے ہی کھاتے ۔ کھانے میں بھی ساتھیوں کا اکرام کرتے اور کبھی دستر خوان پر گوشت ہوتا تو اپنے ہاتھوں سے ساتھیوں کو گوشت توڑ توڑ کر دیتے۔۔۔۔۔۔خود کم کھاتے اور ساتھیوں کو زیادہ کھلاتے۔

رجوع الی اللّٰہ :

اسی طرح شیخ اسامہ رحمہ اللہ ہر مشکل یاخوف اور گھبراہٹ کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے تھے اور ایسے وقت میں نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور اللہ کی یاد میں مشغول ہو جاتے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سب معسکر میں تھے تو ہمیں کچھ گاڑیوں کی آواز آئی اور ان کی روشنی بھی دکھائی دی ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گاڑیاں ہماری طرف ہی آرہی ہیں۔۔۔کچھ بھائی جو پہرے پر متعین تھے اور ایک شلکا گن پر مامور تھے یہ سمجھے کہ دشمن نے ہلہ بول دیا ہے ۔ اس غیر یقینی صورتحال اور گھبراہٹ کے عالم میں ہم نے شیخ اسامہ رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے لگے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ گاڑیاں سمگلروں کی تھیں۔

تواضع اور انکساری:
شیخ اسامہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بہت متوازن شخصیت کے مالک تھے ۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ ہر وقت سنجیدہ ہی رہتے ہوں یا اپنے ماتحتوں کو منہ ہی نہ لگاتے ہوں ۔بلکہ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت والا معاملہ رکھتے تھے اور ان کے ساتھ نہ صرف ہنسی مذاق کرتے بلکہ فٹ بال بھی کھیلتے تھے۔ ایک مرتبہ جب الجزیرہ ٹی وی کے صحافی جمال اسمٰعیل نے شیخ اسامہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ان کا فرصت کے اوقات میں کیا مشغلہ ہے؟ تو شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ وہ گھڑ سواری پسند کرتے ہیں ۔تاہم مذکورہ انٹرویو کے بعد شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے ازراہِ مذاق مجھ سے کہا ''جب صحافی نے ان سے پوچھا کہ انہیں کیا پسند ہے تو وہ بتانا چاہتے تھے کہ انہیں فٹ بال کھیلناپسند ہے ۔مگر انہوں نے اس لیے ایسا نہیں کہا کہ پھر وہ صحافی ان سے پوچھتا کہ وہ جیتتے ہیں یا ہارتے ہیں ؟ توانہیں یہ بتانا پڑتاکہ وہ جب بھی فٹ بال کھیلتے ہیں تو یہ بھا ئی (شیخ حامد گل المصری) ان سے جیت جاتے ہیں''۔
اسی طرح اپنی تمام تر مصروفیا ت کے باوجود شیخ اسامہ رحمہ اللہ تمام ساتھیوں کو وقت دیتے تھے۔جب بھی کوئی ساتھی ان کے پاس آتا تو پوری توجہ سے اس کی بات سنتے اور جب تک وہ اپنی بات مکمل کر کے خود ہی رخصت نہ چاہتا تب تک شیخ بھی اس کے ساتھ بیٹھے رہتے ۔ ہر ایک ساتھی اپنی بات پوری تسلی اور تفصیل کے ساتھ شیخ کے گوش گزار کرتا تھا اورشیخ اس کی بات پوری توجہ سے سنتے تھے یہاں تک کہ اس کی تشفی ہو جاتی تھی۔

امنیت کا خیال رکھنا:
شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ علیہ بڑی سادگی ، رازداری اور ذہانت سے اپنے کاموں کو پایہئ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ گیارہ ستمبر کے مبارک معرکوں سے کچھ ہی عرصہ پہلے ایک یمنی ساتھی سعد التعزی نے خواب دیکھا کہ کچھ بڑی بڑی عمارتیں ہیں اور کچھ جہاز آکر ان سے ٹکرا جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ جب انہوں نے شیخ اسامہ رحمہ اللہ سے اس خواب کا ذکر کیا تو شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے دریافت کیاکہ یہ کام کرنے والے کون لوگ تھے؟ جب بھائی نے یہ جواب دیا کہ وہ جزیرہ عرب کے رہنے والے کچھ لوگوں کا کام تھا تو شیخ نے پوچھا کہ وہ کس قبیلے سے تھے جنہوں نے یہ کام کیا؟ اس پر مذکورہ بھائی نے جواب دیا کہ وہ غامدین تھے ۔تب شیخ نے ان کی توجہ اس طرف سے ہٹانے کے لیے(تا کہ کہیں ساتھیوں میں اس طرح کی عملیہ کا چرچا نہ ہو جائے جب کہ یہ عملیہ اس وقت تیاری کے مراحل میں تھی)کہا کہ غامدین نہ کہو بلکہ غمّد(غامدی کے لیے جمع کا صیغہ)کہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے غامدی بھائی خفا ہو جائیں۔ اس خواب اور بعد ازاں گیارہ ستمبر کے مبارک معرکوں کی صورت میں اس خواب کی تعبیر سے ہم پر نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صداقت بھی واضح ہو گئی جس کا مفہوم ہے کہ آخری زمانے میں مومن کے خواب سچے ہوں گے۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے اس طرح خوش اسلوبی سے بات کوپھیر دیا کہ جیسے ایسا کوئی واقعہ محض خواب و خیال سے زیادہ اہمیت ہی نہ رکھتا ہو ۔۔۔۔۔۔جب کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ خود اس سارے منصوبے کی نگرانی کر رہے تھے۔

ساتھیوں کی خدمت کرنا:
شیخ رحمہ اللہ مجاہدین کے ساتھ ہر کام میں عملی طور پر شریک ہوتے تھے ۔یہاں تک کہ خندقیں کھودنے میں بھی ساتھیوں کی مدد کرتے تھے۔رمایہ(نشانہ بازی) کے لیے بھی ساتھیوں کے شانہ بشانہ ہوتے ۔ کئی دفعہ شیخ مجاہد ساتھیوں کے لیے کھانا بھی اپنے ہاتھ سے تیا ر کرتے تھے۔

بچوں کی تربیت:
شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے اپنے بچوں کو بہترین اخلاق سکھائے اور ان کے سینوں میں جہاد کی روح پھونک دی۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ بذات خود ان کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے۔ اس مقصد کے لیے شیخ رحمہ اللہ نے مختلف علمااور شیوخ کی خدمات بھی حاصل کیں جن میں شیخ الشہید ابو حفص الموریطانی، شیخ ابو یحییٰ الموریطانی ،شیخ ابو سلیمان الموریطانی اور شیخ عبد اللطیف شامل تھے۔ شیخ عبداللطیف قرآن پاک کی دس قرآت کے عالم تھے اور وہ شیخ کے بیٹوں کو قرآن حفظ کرواتے تھے اور قرآت کی تعلیم دیتے تھے۔ شیخ نے گھڑ سواری کی تعلیم دینے کے لیے اپنے ہر بیٹے کو ایک گھوڑا لے کر دیا تھا۔ شیخ اپنے بیٹوں کو خود گھڑ سواری کی تعلیم دیتے تھے۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے ایک فرزند عثمان بھی تھے جنہوں نے بعد میں ہمیں گھڑ سواری کی تعلیم دی۔ان دنوں ان کے پاس سفید گھوڑا تھا۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے سبھی بیٹے بہت با ادب، با اخلاق اورمنکسر المزاج شخصیت کے حامل تھے۔ کبھی ہم نے انہیں کسی کے ساتھ بے ادبی یا بدتمیزی سے پیش آتے ہوئے نہیں دیکھا۔

علم اور اہل علم سے تعلق:
شیخ اسامہ رحمہ اللہ عموماً شیخ الطحان ، شیخ حمود بن عقلاء الشعیبی اور شیخ حمود بن زعیر کے دروس سنتے تھے اور پاکستانی علمامیں سے مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ کے بیانات سننا پسند فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے علما اور طلبا بھی شیخ اسامہ رحمہ اللہ سے ملنے کے لیے آتے تھے۔شیخ اسامہ رحمہ اللہ علمائے دین اور طلبا کی ان مجالس کو بہت پسند فرماتے تھے اور بسا اوقات پاکستان اور دیگر خطوں سے آنے والے علما کو شیخ رحمہ اللہ تعلیم بھی دیتے تھے۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کو مطالعے سے غایت درجہ دلچسپی تھی ۔ہر وقت کوئی نہ کوئی کتا ب اپنے ساتھ رکھتے اور جب بھی فرصت کے چند لمحات میسر آتے تو شیخ رحمہ اللہ مطالعے میں منہمک ہو جاتے ۔اس طرح شیخ اپنے وقت کو ضائع ہونے سے حتی الامکان بچاتے تھے اور وقت ضائع کرنے کو پسند نہ فرماتے۔ شیخ اپنے رفقا کو بھی گاہے بگاہے تفسیر اور حدیث کی تعلیم دیتے تھے۔
طالبان دور میں جب شیخ اسامہ رحمہ اللہ افغانستان تشریف لائے تو انہیں طالبان پر سعودی حکمرانوں کا ارتداد واضح کرنے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑی۔ کیونکہ سعودی حکمران شیخ اسامہ اور ان کے مجاہد ساتھیوں کو خارجی اور مفسد ثابت کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان علمائے سوء کے وفود بھیجتے رہتے تھے جنہوں نے آل سلول کے اقتدار کو سہارا دے رکھا ہے اور جو اپنے گمراہ کن فتاویٰ سے صلیبیوں اور صیہونیوں کے ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔یہ ایسے علما تھے کہ انہوں نے تو گویا اللہ کو چھوڑ کر آل سلول کی حکومت کو ہی اپنا الٰہ بنا رکھا تھا۔ گو کہ طواغیت نے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہدحفظہ اللہ کے پاس پے درپے علمائے سوء کے وفود بھیج کر اس بات کی بہت کوشش کی کہ کسی طرح شیخ اسامہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو تکفیری اور خارجی قرار دے کر افغانستان سے نکلوا دیں ۔لیکن شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے پاس بھی علمائے سوء کے اعتراضات پرمضبوط جوابی دلائل تھے ۔جن میں سے ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اگر سعودی حکومت کو دین اور شریعت سے کچھ واسطہ ہوتا تو بھلا صلیبیوں کو سرزمین حرمین پر کیونکر قدم رکھنے دیتے جب کہ اس ضمن میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے کہ جزیرہئ عرب سے مشرکین کو نکال دو اور آل سلول نے تو ان کو خود وہاں لا کر بسایا اور خبیث مشرکین خیبر میں پھر قدم رکھنے پر خوشیاں مناتے رہے۔ مسلمانوں کو تو ویزے وغیرہ کی پابندیوں کا سامنا ہے لیکن صلیبیوں کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں۔اللہ تعالی حق والوں کو اہل حق کی پہچان عطا فرماتے ہیں ۔پس امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ بھی سعودی طواغیت کی حقیقت سے بخوبی واقف ہو گئے ۔وہ جان گئے کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی حق پر ہیں پس انہوں نے شیخ اسامہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو کسی کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ حالانکہ اپنے اس موقف کی وجہ سے انہیں شدید آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتے ہیں:
أ
َحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا  یُفْتَنُونَ
طرح طرح کے مصائب و آلام کا سامنا اور مجاہدین کی حوالگی کے عوض طرح طرح کے انعام و اکرام ا ور نوازشات کی ترغیبات بھی امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کو حق سے نہ پھیر سکے حالانکہ مجاہدین کی حوالگی کے لیے دباؤصرف سعودی حکومت کی طرف سے ہی نہیں تھا بلکہ ازبکستان کی حکومت کی طرف سے بھی یہ مطالبہ سامنے آیا کہ ازبک مجاہدین کو ان کے حوالے کیا جائے ۔اسی طرح چین کی حکومت نے بھی یہ مطالبہ کیا کہ ابو محمد ترکستانی اور دیگر ترکستانی مجاہدین کو ان کے حوالے کیا جائے اور اس کے بدلے انہوں نے تعمیر و ترقی کے ذریعے افغانستان کی حالت بدل دینے کی پیش کش کی ۔لیکن امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ نے ایک بھی مجاہد کو کفار کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ اور امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ ایک ہی راہ کے راہی تھے اور ایک ہی عقیدے پر قائم تھے ۔دونوں کا منہج اور مقصد ایک ہی تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کا بول بالا ہو اور چہار سوقانون شریعت کی حکمرانی ہو۔
ایک مرتبہ جب ہم قریۃ المطار افغانستان میں تھے تو ہم نے ایک بہت بڑے ہوائی جہاز کو ہوائی اڈے پر اترتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا جہاز یہاں کہاں سے آیا اور کیوں آیا؟کیونکہ وہاں پہلے کبھی اتنا بڑا جہاز نہیں دیکھا گیاتھا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ اس طیارے میں سعودی انٹیلی جنس کا سربراہ ترکی الفیصل امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ سے ملنے آیا ہے۔ سعودی طواغیت کے اس نمائندے نے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ سے مطالبہ کیا کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو اس کے حوالے کیا جائے۔ اسی مقصد سے وہ اتنا بڑا جہاز لے کے آیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اگر اس مقصد کے لیے یہ جہازکافی نہ ہوا تو وہ دوسرا جہاز بھی بھجوائے گا۔ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ نے دریافت فرمایا کہ وہ ان کو کیوں لے جانا چاہتا ہے؟ اس پر اس خبیث نے جواب دیا کہ ہم ان سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ نے دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں ہتھیلی پر لیے پھرنے والے ان مجاہدین کو سعودی طواغیت کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا تو ترکی الفیصل بد بخت بہت غصے میں آ گیا۔یہاں تک کہ جب اس کے سامنے کھانا لایا گیا تو اس نے نہ صرف یہ کہ طالبان کا لایا ہواکھانا کھانے سے انکا ر کر دیا بلکہ کھانے کو ٹھوکر مار دی۔ اور امارت اسلامی کی مہمان داری کو ٹھکرا کر صلیبیوں اور صیہونیوں کے آلہ کار اقوام متحدہ کے قندھار میں واقع دفتر میں اپنے آقاؤں کے پاس چلا گیا اور وہاں جا کے آرام کیا۔
شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے خود امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور ان کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے ہی یاد کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ اسامہ رحمہ اللہ علیہ عیدین پر اور دیگر اہم مواقع پر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ سے ملتے رہتے تھے۔ میں
خود بھی شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے ہمراہ دو مرتبہ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکا ہوں۔
شیخ اسامہ رحمہ اللہ کا قول تھا کہ فدائین جتنے زیادہ ہوتے چلے جائیں گے نصرت اتنی ہی قریب آتی چلی جائے گی اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے خود بھی آخری وقت میں استشہادی حملہ کیا تھا نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ۔غالباً شیخ رحمہ اللہ کی دور اندیش طبیعت نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ کفار کے ساتھ مقابلے کی نوبت آ سکتی ہے اس لیے شیخ رحمہ اللہ نے کافی عرصے سے یہ معمول بنا لیا تھا کہ جہاں بھی ہوتے فدائی جیکٹ اپنے ساتھ رکھتے۔

امت کی غم خواری:
شیخ اسامہ رحمہ اللہ امت کے ہر ہر دکھ کو اپنا ہی دکھ سمجھتے تھے۔امت مسلمہ کو کہیں بھی کسی مصیبت یا تکلیف کا سامنا ہوتا تو شیخ تڑپ اٹھتے۔ خصوصاً قبلۂ اول کی بازیابی کے لیے آپ بہت بے چین رہتے تھے۔حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے قسم کھائی کہ امریکہ اور امریکہ میں رہنے والے اس وقت تک امن و امان سے رہنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جب تک ہم فلسطین اور افغانستان میں امن نہ دیکھ لیں۔شیخ اسامہ رحمہ اللہ اہل ایمان کی فلاح و بہبود کے بہت حریص تھے۔کہیں بھی مسلمانوں کو مدد کی ضرورت ہوتی تو شیخ حتی المقدور ان کی مدد فرماتے تھے۔ چونکہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ فی سبیل اللہ یہ سب کچھ کرتے تھے اس لیے ان باتوں کا چرچا نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بھائی نے شیخ اسامہ رحمہ اللہ سے شکوہ کیا کہ آپ بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کرتے تو آپ نے اپنے خزانچی ابو تراب بھائی کو بلایا اور کہا ان کو بتاؤ کہ ہم اہل بوسنیا کی مدد کرتے ہیں یا نہیں تو ابو تراب بھائی نے بتایا کہ شیخ رحمہ اللہ نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لیے ہزاروں ڈالر دیے۔ اسی طرح کوئی بھی اسلامی جہادی تنظیم جو صحیح عقیدے پر قائم ہوئی شیخ نے اس کی ہر ممکن مدد کی یہاں تک کہ ایسی جہادی تنظیمیں جوآزادی کے لیے طواغیت سے تعاون لے کر کام کرتی تھیں بسا اوقات ان کی بھی مدد کرتے تھے ،مثلاً کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیمیں وغیرہ۔کیونکہ شیخ رحمہ اللہ جس کسی میں خیر کا کچھ بھی عنصر دیکھتے تھے تو اس کی مدد کرتے تھے تاکہ خیر اور بھلائی کو پھیلایا جا سکے۔ اسی طرح شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے شیشان میں مجاہدین کی ہر طرح سے مدد کی اور ان کو مالی وسائل اور افرادی قوت بہم پہنچائی۔ شیشان میں برسر پیکاربہت سے مجاہدین نے شیخ کے قائم کردہ معسکر میں تربیت حاصل کی تھی۔

اگلے مورچوں میں گزرے ایام:
شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے
1988 ء میں روسی افواج کے ساتھ پیش آنے والے آخری معرکوں کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ غاصب روسی افواج اور عرب مجاہدین کے درمیان بھر پور لڑائی افغانستان میں جاجی کے محاذ پر ہوئی۔ یاد رہے کہ جاجی کے محاذ پر پہلے افغان مجاہدین تھے جو گرمیوں میں تو وہاں قبضہ کر لیتے مگر سردیوں میں موسم کی شدت اور راستوں کی بندش کی وجہ سے روسی افواج کے ساتھ ایک دو لڑائیوں کے بعد اگلے مورچوں سے ہٹ کر پچھلے مورچوں پر آ جاتے تھے ،جہاں سردیوں میں بھی رسد کی فراہمی ممکن تھی اور گرمیوں میں پھر پیش قدمی کر کے روسی افواج کو وہاں سے مار بھگاتے تھے۔ جب شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے یہ حال دیکھا تو انہوں نے اس طرح کا انتظام کیا کہ موسم سرما میں بھی اگلے مورچوں تک گولہ بارود اور رسد کی فراہمی ممکن ہو اور مجاہدین موسم سرما میں بھی مسلسل اگلے مورچوں پر رہ کر غاصب روسی افواج کے لیے درد سر بنے رہیں۔ اس سال موسم سرما کے آغاز میں شیخ اسامہ رحمہ اللہ اپنے ساتھ عرب مجاہدین کو لے کر بنفس نفیس اگلے مورچوں پر چلے گئے۔ وہاں دشمن کے مقابلے میں مجاہدین کی تعداد بہت ہی کم تھی ایسے میں دو اور عرب مجاہدین جن کا تعلق مصر سے تھا وہاں آئے۔وہ کچھ دن وہاں رہ کر آگے کہیں اور جا نے کا ارادہ رکھتے تھے۔شیخ ابو حفص رحمہ اللہ نے شیخ اسامہ سے کہا کہ ان دونوں بھائیوں کو یہیں روک لیں کیونکہ یہاں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس پر شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے کہا کہ تھوڑا صبر کریں شاید اللہ تعالیٰ خود ان کے دل میں یہ بات ڈال دے اور وہ یہاں رک جائیں۔۔ جب شام ہوئی تو دونوں بھائی خود شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے پاس آئے اور اسی محاذ پر شیخ اسامہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ رہنے کی اجازت چاہی۔اس طرح وہ دونوں بھائی بالآخر وہاں رک گئے۔ اس محاذ پر مجاہدین کی قلیل تعداد کے پیش نظر شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے ایک بھائی کو جزیرہ ئعرب کی طرف بھیجا تا کہ مزید لوگوں کو جہاد کی طرف دعوت دیں اور یہاں محاذ کی طرف لائیں۔ اس موقع پر شیخ رحمہ اللہ نے ان بھائی کو کہا کہ ''جتنے دن آپ وہاں رہیں کم سے کم اتنے ساتھی واپسی پر آپ کے ہمراہ ہونے چاہئیں''۔ڈیڑھ ماہ بعد جب وہ بھائی واپس آئے تو اپنے ہمراہ مزید پچپن تربیت یافتہ مجاہد ساتھی لے کے آئے۔
شیخ رحمہ اللہ دشمن کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے۔ روسی افواج کی نفسیات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے کہا کہ روسی افواج رات کو حملہ کریں گی تو ہمیں دفاع کرنا ہو گا، وہ صبح حملہ کریں گی تو ہمیں دفاع کرنا ہوگا اسی طرح وہ ظہر اور عصر کے وقت حملہ کریں گی تو بھی ہمیں دفاع پر قائم رہنا ہو گا یہاں تک کہ وہ بالکل تھک جائیں اور ان میں لڑنے کی طاقت نہ رہے تو پھر ہم ان کو مرغیوں کی مانند پکڑ پکڑ کر قتل کر سکتے ہیں۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے وہاں موجود مجاہدین کو دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ایک وقت میں مجاہدین کا ایک گروہ اگلے مورچوں پر رہتا جب کہ دوسرا گروہ آرام کرتا تھا تاکہ مجاہدین اگلے مورچوں پر چاق و چوبند رہ سکیں۔ روسیوں نے موسم سرما میں مجاہدین کے مورچوں پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کا آغاز شدید بم باری سے کیا۔
شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے بم باری کی شدت کا نقشہ کھینچتے ہوئے مجھے بتایا کہ ایک ایک میٹر کے فاصلے پر دشمن کے گولے آ کر گرتے تھے لیکن بحمداللہ مجاہدین ایسے کسی بھی حملے کے لیے پہلے سے تیا ر تھے اور انہوں نے خندقیں کھود رکھی تھیں۔ جب بھی بم باری ہوتی مجاہدین ان خندقوں میں چلے جاتے اور اللہ کے فضل سے اس طرح مجاہدین بخیر و عافیت رہے۔ بم باری کے جواب میں مجاہدین نے بھی اپنے پاس دستیاب معمولی اسلحے سے دشمن کو نشانہ بنایا اور اللہ کی نصرت اور مدد کی بدولت دشمن کا خاطر خواہ نقصان ہوا۔ یہاں تک کہ زخمیوں کو اٹھانے کے لیے جب روسی ایمبولینس آئی تو مجاہدین نے اسے بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی اور مجاہدین کا داغا گیا ایک گولہ ایمبولینس کے بالکل قریب ہی گرا جس سے ایمبولینس والے بھی خوفزدہ ہو گئے اور زخمیوں کو اٹھائے بغیر ہی ایمبولینس کو واپس بھگا لے گئے اور اس سخت معرکے میں بالآخر روسی افواج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ معرکہ افغانستان میں لڑے جانے والے ان آخری معرکوں میں سے ایک معرکہ تھا جو روسی افواج کو افغانستان سے بھگانے کا سبب بنے۔
روسی افواج کے انخلاکے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک جرنیل کی قیادت میں اعلیٰ تربیت یافتہ روسی کمانڈوز ایک جنگل میں داخل ہوئے جہاں مجاہدین پہلے ہی ان کے استقبال کے لیے گھات لگائے ہوئے تھے۔ روسی جرنیل کو نجانے کیا ہوا کہ دفعتاًادھر ادھر دیکھ کر چلانے لگا۔اسی اثنامیں ایک مجاہد بھائی نے اپنی کمین گاہ سے نکل کر اس جرنیل پر حملہ کردیا اور اس کو سر سے پاؤں تک گولیوں سے چھلنی کر دیا اس کے بعد میدان کارزار گرم ہو گیا۔ اس کارروائی میں بہت بڑی تعداد میں روسی کمانڈوز جہنم واصل ہوئے۔ ان عملیات کے بعد بڑی تعداد میں روسی فوج کا غیر منظم انخلا شروع ہوا۔ روسی فوج کے پاس انخلا کا ایک ہی راستہ تھا جہاں پر مجاہدین ان کو الوداع کہنے کے لیے بھر پور تیاریوں کے ساتھ پہلے ہی موجود تھے۔ بھاگنے والی روسی افواج کو ایک وادی سے گزرنا تھا جس کے آس پاس مجاہدین پہاڑوں پر پیکا ، راکٹ اور٢٨ایم ایم وغیرہ لے کر گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جب کہ پہاڑوں کی آڑ میں مجاہدین نے ہاون اور بی ایم وغیرہ بھی نصب کر رکھے تھے۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ روسی افواج کا ایک بہت بڑا ریلا اس وادی میں داخل ہوا۔ بھگوڑے روسی فوجیوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ پوری وادی روسی افواج سے بھر گئی یہاں تک کہ اگرکسی پہاڑ سے پتھر بھی لڑھکایا جاتا تو کوئی نہ کوئی بھگوڑا فوجی اس کی زد میں آ جاتا۔ مجاہدین نے اس وادی میں اس بھگوڑی فوج کی ایسی درگت بنائی کہ اس کے بعد کہیں بھی انہیں مجاہدین سے لڑنے کی ہمت نہ ہوئی۔

شیخ حامد گل المصری کا امت کے نام پیغام:
میں اپنی محبوب امت مسلمہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایک ہی راستہ ہے جو حق کا راستہ ہے، جس کے ذریعے ہم اس دنیا میں اسلام کا بول بالا کر سکتے ہیں اور خلافت اور شریعت کی حاکمیت قائم کر سکتے ہیں اور وہ جہاد کا راستہ ہے۔ میں اپنے مجاہد بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس راستے میں ثابت قدم رہیں۔ میں اپنے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ شیخ رحمہ اللہ کے اہل خانہ کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔شیخ کے اہل خانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے بلکہ ان میں سے دو تو شرعی علوم میں ڈاکٹریٹ کی سند کی حامل تھیں۔ وہ ہماری بہنیں ہیں اور ہم نے ہمیشہ ان کے بارے میں خیر ہی سنا ہے۔ ان کی رہائی کے جو کچھ ہو سکے، کریں مثلاً استشھادی عملیات سے طواغیت کو ان کی رہائی کے لیے مجبور کردیں یاغیر ملکی محاربین کو اغوا کر کے ان کے بدلے رہا انہیں
کروائیں یااگر ممکن ہو تو مال خرچ کر کے انہیں رہا کروا لیں۔ کیو نکہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ خود بھی یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں کسی مسلمان بھائی کی رہائی کے لیے سارا بیت المال بھی خرچ کرنا پڑے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن ہمارا بھائی رہا ہو جائے۔نیز اِس پُرآشوب دور میں امت مسلمہ کو وہی کہنا چاہتا ہوں جو امام ابن القیمؒ نے فرمایا:
لا یغرنکم قلۃ السالکین ولا کثرۃالھالکین
''تمہیں راہ حق کے راہیوں کی قلت اور راہ ہلاکت کے راہیوں کی کثرت پریشان نہ کرے ''۔
تکالیف اور آزمائشیں تو راہ حق کا سنگ میل ہیں۔ امام شافعی ؒسے جب پوچھا گیا کہ کیا بندہ بغیر آزمائش کے غلبہ پا سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا :
لا یمکن المرء حتی یبتلی
یعنی کوئی فرد آزمائش کے بغیر غلبہ نہیں پا سکتا۔ فتح و نصرت پانے کے لیے تو آزمائش سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔
٭٭٭٭٭

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔