Tuesday, December 04, 2012

افغانستان سے امریکی انخلاء میں سست روی،وجوہات واسباب


تحریر: عبدالوہاب الکابلی
افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کا کوئی عقلمندانسان انکار نہیں کرسکتا ۔افغانستان سے انخلاءمیں سست روی سے کام لینا صرف اور صرف اس لیے ہے کہ وہ یہاں سے چلے جانے کے بعد ایسا طبقہ تیار کرے جو افغانستان پر امریکی یلغار و حملہ کے مقاصد کو پورا کرے ۔ان اہداف واغراض کو پایہ تکمیل تک پہنچائے جو وہ جنگ کے ذریعہ حاصل نہ کرسکے ۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ ان جماعات اور شخصیات کو استعمال کررہاہے جو دین دشمنی میں مشہور اور اپنی مثال آپ ہیں ۔ اگرچہ وہ مختلف قوم ونسل سے تعلق رکھتے ہو ں اور الگ الگ نظریات کے حامل ہوں ۔
اس وقت امریکہ افغانستان میں اپنے مستقبل کے جانشینی کے لیے مندرجہ ذیل جماعتوں اور شخصیات کی آبیاری کررہاہے تاکہ وہ اس کے چلے جانے کے بعد اس کے استعمار ی مقاصد واہداف کو بخوبی انجام دے سکیں ۔ وہ جماعتیں یہ ہیں :
اشتراکیت پسندجماعتیں :
اشتراکیت کے قائلین اس وقت افغانستان کے شمالی علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے بڑے عرصے تک افغانستان پر حکومت کی ہے ۔ ابھی بھی اشتراکیت کے ماننے والے کسی نہ کسی درجے میں افغانستان کے اطراف و اکناف میں پائے جاتے ہیں ۔ یوں اشتراکیت نے طویل عرصے حکومت کرنے کی وجہ سے افغانستان کے باسیوں پر گہرے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
اشتراکیت اپنی اصل میں اسلام کا مخالف اور تہذیب ِ مغرب کی پیداوار ہے ۔
آج جب کہ یہ نظام یورپ کے مادر پدر آزاد کلچر میں ایک دفعہ پھر سر اٹھارہا ہے ۔ خود مشرقی یورپ اور سویت یونین کی اشتراکیت کے ماننے والوں نے سرمایہ دارانہ نظام والوں کے ساتھ شمولیت اختیار کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی جماعتوں نے اپنی سیاسی ، معاشی ، اجتماعی معاملات میں اشتراکیت کے ماننے والوں کو اپنے ساتھ شامل کیاہے ۔ اشتراکیت چونکہ اسلام کا مخالف ہے اسی لیے اس کے حامی گروہ مجاہدین کے خلاف بھی کینہ وحسد رکھتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں اس نظام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ ان اسباب ووجوہات کی وجہ سے امریکہ نے جب سے اپنے استعمار کاقدم سر زمین افغانستان پر رکھاہے ۔ اسی وقت سے اشتراکیت کے قائلین کو خوب نواز ا ۔ ان کو کلیدی عہدوں اوراہم مناصب پر فائز کیا۔ سرکاری امور میں ان کے اثر ورسوخ کو بڑھا یا ۔ اس نظام کے قائلین کاامریکہ کے ساتھ مل جانے کی ایک وجہ تو اسلام دشمنی ہے جبکہ دوسری اور اہم وجہ مجاہدین اسلام سے بدلہ چکانا ہے ۔بدلہ لینا امریکی چھتری تلے بغیر چونکہ ممکن نہیں ۔اس لیے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر اپنے جنگی مہارت کو پیش کرکے بدلہ لینا چاہتے ہیں ، ان میں سے بعض ناعاقبت اندیشوں نے مجاہدین اسلام کی مخالفت میں شرم وحیاکی انتہاءکرتے ہوئے مناصب وجاہ لینے کے لیے ارتداد کانعوذ باللہ راستہ اختیار کیا ۔چونکہ ان کو امریکہ کے چلے جانے اور امارت اسلامیہ کے واپس برسر اقتدار آنے کا بھی خیال ہے ، اس لیے وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں ، فوج ، پولیس ، ملیشیات ، اور دوسرے حکومتی اداروں میں گھس جانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد اپنی بقاءکاسامان کریں ۔
اسماعیلی آغاخانی اور اس کی حلیف جماعتیں :
اسماعیلی آغاخانی عالمی فرقہ باطنیہ کاترجمان اور عالمی صہیونی کا حلیف ہے ۔ یہ صرف ایک مذہبی فرقہ ہی نہیں بلکہ مالی ، تعلیمی ، صحت اور اطلاعات کے اداروں کا مجموعہ ہے ۔ عالمی صہیونی کے توسط اور اپنے تعمیری منصوبوں کے ذریعہ عالم اسلام پر اپنا تسلط بڑھا رہاہے ۔ یہ فرقہ افغانستان کے شمال میں رہتا ہے ۔ یہ اپنے عقائد ،نظریات کی وجہ سے دیگر افغانیوں سے مختلف ہیں ۔ قیام حکومت اسلام کے متمنیین کے خلاف ان کے دل ودماغ حسد وکینہ سے بھر ہوئے ہیں ۔یہ فرقہ ہمیشہ سے استعماری قوت کا منظور نظر رہاہے ۔غاصب روس نے جب افغانستان پر قدم رکھا تو اس فرقہ کے پیروکار وں کو خوب نوازا ۔ اس بار جب امریکہ اپنے لاو لشکر کے ذریعہ افغانستا ن پر قابض ہوا تو بھی ان کو عہدوں ، ومناصب ، اور جاہ وحشم سے نوازا ۔ امریکہ نے ان کو افغانستان میں اپنے چینل کی جال پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی ہے ۔ ان کا مشہور چینل ”طلوع“ جوکہ افغانستان میں جال کی طرح پھلا ہوا ہے اس نے نجی چینل ہونے کے باوجود سرکاری اور دیگر نجی چینلوں کو مات دی ہے ۔ اس کے علاوہ باقاعدہ معاہدہ کے تحت سیرو تفریح ، پارکوں اور فائیو اسٹارہو ٹلوں کو ان کی نگرانی میں دیا گیاہے تاکہ وہ ان تفریحی مقامات کو فحاشی وعُریانی کے اڈے بنائیں ۔
سیکو لر اور جمہوری عناصر :
امریکہ نے افغانستا ن پر حملہ کے بعد جس طبقہ کو حد سے زیادہ اپنی عنایات سے نواز ا ہے، وہ سیکولراور جمہوریت پسند طبقہ ہے ۔ سیکولر کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے تعلیم اور میڈیا کو سیکولر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے ۔لوگو ں کو جمہوریت سے مانوس کرنے لیے دو سو سے زیادہ سیاسی جماعتیں ، سیکڑوں میلیشات اور دیگر ناموں سے ایجاد کیے ۔ افغانستان کے اسلامی معاشرہ کو مغرب زدہ بنانے اپنی سی کوشش کی ۔ جو عریانی وفحاشی ، بددینی ، دین بیزاری اور روحانی اور بدنی امراض کا سبب ہے ۔ نسل ِ نو کو سیکولر بنانے کے لیے انہوں نے نصاب سے ہراس چیز سے نکال دیا جو جہاد ، نیکی اور صلہ رحمی کا جذبہ پیداکرے۔ اس کے لیے انہوں نے بیس سے زیادہ فضائی چینل اور ڈیڑھ سو سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن ، ہزار سے زیادہ اخبار ورسائل جاری کیے ہیں ۔ ان سب کو وزارت اطلاعات کی تائید حاصل ہے ۔ ا ن کو مغربی ادارہوں کی آبر و کے اشارہ سے ہورہاہے جو افغانستا ن کی نسل جدید کو اپنے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنے کے لیے سرزمین افغان پر قد م رکھاہے ۔سیکولر کے لاعلاج مرض نے اس وقت پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔ بندہ اور خد ا کے درمیان تعلقات میں شگاف ڈال دیاہے ، عبادت کو زندگی کے سارے شعبو ں سے نکال دیاہے ، بندگان خدا کے قلوب میں یہ مفہوم بٹھانے کے لیے کوشش کی ہے کہ امور حیات ، مسائل زندگی میں انسان آزاد ہے، وہ اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی تعمیل کی پابند نہیں ہیں اگران کی کوششوں کاثمرہ دیکھنا ہو تو عالم اسلام کے حکمرانوں کی زندگی پر نظر ڈالیں کہ انہوں نے کس طرح اپنی روزمرہ کی زندگی سے اسلام کو نکال باہر کیا ہے ۔
مرتدین کی جماعت:
یہ جماعت صلیبیوں کی دیرینہ آروز ہے ، اس کام کے لیے افغانستان میں چار ہزار مغربی اداروں کے تحت ایک ہزار سے زیادہ کلیسائیں کام کررہی ہیں ۔ افغانستان میں اس جماعت کے افراد کو اپنی رائے ، اپنے مذہب کے اظہار کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور مغرب کے رؤسا اور حکومتوں نے بعض مرتدین کو اپنے ارتداد کے اظہار کرنے پر اکسایا تاکہ یہ دوسروں کے لیے نمونہ بن جائےں ۔ اس کے علاوہ امریکہ نے افغانستان کے پڑوسی ممالک میں عیسائی ریڈیو اسٹیشنزبنائیں جہاں چوبیس گھنٹے پشتو زبان میں عیسائیت کی تبلیغ کی جاتی ہے ۔
مغرب نے مذہب کی آزادی ، اقلیات کے حقوق کی آڑ میں افغانستان میں عیسائی اقلیت کی داغ بیل ڈال کر حکام کو مرتدین کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اپنانے کی تلقین کی ہے ۔ افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران ، چغہ پوش مسخرہ حامدکرزئی نے 9نومبر 2009ءکو ایک امریکہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ "مغربی ممالک حدوداور احکام ارتداد کے متعلق دخل اندازی کرر ہے ہیں "۔
سیکولر جمہوریت کے داعی علماء:
اسلامی جمہوریت کے داعی علماءسیکولر جمہوریت کے داعیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وہ ظاہر میں اسلام کے حامی اور باطن میں مغربی جمہوریت کے گرویدہ ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلامی جماعتوں سے وابستہ ہیں جو باطن میں مغربی جمہوریت کے حامی اور عملی زندگی میں ان طریقوں کو اپناتے ہیں جو ان کو مغربی جمہوریت سکھا کر اسلام کوصرف عقائد تک محدود رکھتے ہیں ، عملی زندگی میں اس پر عمل پیرا رہتے ہیں ۔
مفکر اسلام سید ابو الحسن ندوی ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
ایک فریق ،ایک جماعت وہ ہے جو ان سیکولر وں کی مدد کرتی ہے ، منافع وفوائد میں ان کے ساتھ شریک ہوتی ہے ۔ اور اس کو اپنے دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ نہ دعوت اسلام کی فکر ، نہ عقیدہ اسلام کی لاج ، نہ دین کے نام پر غیرت وحمیت ، نہ اصلاح ودرستگی کا احساس ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ یہ لوگ دین کی خدمت دنیوی منافع ، دنیوی جاہ ومنصب حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں “۔
یہ لوگ سابق جہادی تنظیموں کی صف اول کے مجاہدین تھے لیکن پھر یکدم پلٹ کر سیکولر جمہوریت کے حامی بن گئے ۔اور صلیبیوں کی جماعت میں شامل ہوکر مجاہدین کے خلاف سربستہ ہوگئے ۔ جیسے استاد سیاف ، ربانی ، مجددی اور جیلانی جو پہلے مجاہدین کی صفوں میں شامل تھے لیکن ابھی امریکہ اور اس کے حواریوں کے حلیف ہیں ۔
امریکہ کی آخری امید وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو روشن خیال اور طالبان کے کارکن سمجھتے ہیں اگر چہ وہ اب امریکہ کی تشکیل کردہ حکومت میں شامل ہوئے ہوں ۔ان کامقصد نوجوان نسل کو مغرب کی مادر وپدر آزاد تہذیب کا دلدادہ بنانا ہے ۔اس مقصد کے لیے وہ یونیورسٹیز ، جامعات، کالجز اور سکولز کا رخ کرتے ہیں اورخالی خولی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کو یہ سبق سکھاتے ہیں کہ اسلحہ چھوڑ دو ، جہاد کو چھوڑدو ، ان پر لعنت بھیجوو اور نوجوان کو ان جماعتوں میں شامل ہونے کا کہتے ہیں ۔ جو مغربی جمہوریت میں شامل ہونے اور اسلام کے مقدس جہاد کے قافلے میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
یہ تیسرا طبقہ جو اپنے آپ کو طالبان کی طرف منسوب کرتے ہیں ، واقعتا تحریک طالبان میں شامل تھے ، لیکن پھر انہوں نے پینترا بدلا اور امریکہ کی گود میں جا بیٹھے ۔ کیونکہ ان کی تحریک طالبان میں شمولیت فکر ونظر ، عقیدہ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ تحریک طالبان میں شمولیت جاہ ومنصب اور کرسی اقتدار حاصل کرنے کے لیے تھی ۔ جب امارت اسلامیہ کاسقوط ہوا ، ان کی کرسی اقتدار ختم ہوگئی ۔ تحریک طالبان کو چاروں اطراف سے آلا م و مصائب ، آفات ومشکلات نے گھیرنا شروع کیا ، محلات کو چھوڑ کر پہاڑوں کی دشوار زندگی اختیار کرنے کی نوبت آ پڑی تو ان پیٹ کے پجاریوں نے طالبان کو چھوڑ کر امریکہ کی گود پناہ لینے کو بہترسمجھا ۔ کیونکہ انہوں نے تحریک طالبان میں شمولیت ہی جاہ و منصب وکرسی حاصل کرنے کے لیے کی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو مجاہدین کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے امریکہ استعمال کرتا ہے ۔
امریکہ کو افغانستان میں اپنی شکست کایقین ہوچکا ہے ۔ اس لیے وہ اس کے لیے بہتریں سیکولر نعم البدل تلاش میں ٹامک ٹوئیاں کررہاہے تاکہ وہ افغانستان میں اس کے جاری مقاصد ، اہداف کو بخوبی انجام دے سکیں ۔ اور تلاش بسیار کے بعدیہ جماعتیں یہ شخصیات امریکہ کو ملی ہیں اور امریکہ کی آخری کوشش یہ ہے کہ ان کی آبیاری کرکے وطن واپسی پر اپنا صالح جانشین بناسکے ۔
امید ہے کہ افغانستان کے غیور اور اسلام پسند عوام حسب سابق ان کو یکسر مسترد کرےں گے۔ کیونکہ ان کو ان کے کفر وارتداد اور امریکہ اور صہیونیوں کے حلیف اور لادین ولامذہب وسیکولر ہونا معلوم ہے ۔
یہ بھی بعید نہیں کہ امریکہ اور اہل مغرب افغانستان میں لادین اور سیکولر جماعتوں کا باہمی اتفاق واتحاد کرائیں تاکہ وہ مل جل کراس کے جانے کے بعد طالبان کا مقابلہ کرکے اس کے استعماری مقاصد کو انجام دے سکیں ۔ جیساکہ ا نہوں نے یہ پالیسی ان اسلامی ممالک میں اپنائی جہاں استعماری قوتوں کوبآلاخر کوچ کرنا پڑا۔ مجاہدین اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی استعماری چالیں اور اغراض و مقاصد کو سمجھیں اور ا ن کو ناکام ونامراد بنانے کے لیے مناسب تدبیر سوچیں۔

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔