Sunday, December 23, 2012

انگریزی خاک کا خمیر

تحریر: عبد اللہ حفیظ
قیامِ پاکستان سے قبل برّ صغیر میں انگریز بیرونی قابض کی حیثیت سے موجود تھا۔ جو دین، قوم، خطہ، نسل اور زبان ہر چیز میں فرق کے باوجود اپنے معاشی مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی تسکین کے لیے بہرصورت معاشی و افرادی قوت کے حامل اس خطے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے جتنے بھی قوانین بناۓ اور جو بھی ادارے قائم کیے ان کا بنیادی ہدف یہی رہا۔ اس سب کے ساتھ مقامی آبادی کو قابو میں رکھنے، ان میں اور حکومت میں ربط بڑھانے اور انہیں اپنے مفادات کی راہ میں استعمال کرنے کے لیے’’مقامی معاونین‘‘ کا ایک تابعدار طبقہ انگریز جیسے اجنبی کی ناگزیر ضرورت تھا۔  تعلیم وتحریص کے بعد انگریز کو بہت سے’’سر‘‘اور ’’نواب‘‘میسر آگئے۔ جنہوں نے ڈیڑھ سو سال انگریز کی سرکار کو قائم رکھا۔ دفتروں کا کام چلانے میں پینٹ کوٹ پہنے بابو کام آۓ اور دیہی علاقوں میں  حکومتی رٹ بحال رکھنے کے لیے انگریزی سرکار کا دیا ہوا ’’ٹکا‘‘ پگڑی میں سجاۓ ہوۓ نواب۔ ان کی سرکار انگریز تھی اور یہ عوام کی سرکار۔ عوام کو اپنی ضروریات اور مسائل کے حل کے لیے ان تک آنا پڑتا۔ یہ عوام کے مسائل اور ضروریات کو گورے افسروں تک پہنچاتے اور گوروں کے لیے مقامی آبادی سے فوج میں بھرتیاں، زرعی پیداوار کی برطانیہ کے کارخانوں کے لیے فراہمی اور امن و امان کو یقینی بناتے۔ اسی خدمت کے بدلے یہ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بنے اور فوج و سول اداروں میں بڑے عہدوں پر براجمان کیے گئے۔ گویا یہ ریاست کے اندر ایک ریاست تھی، شاید کوئی دوسرا اسے مافیا کا نام بھی دے دے۔ ان ذیلی حکمرانوں کے یونہی وارے نیارے رہے یہاں تک کہ برطانیہ عالمی جنگوں میں اپنی کمزور ہوتی صورتحال کے باعث یہاں سے کوچ کرنے پر مجبور ہوا۔

پاکستان بننے کے بعد جہاں  ریاست کے تمام بنیادی ادارے یعنی مقننہ، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اس کی جغرافیائی سرحدات کے تحفظ کی ضامن افواج کی تنظیم اور کارروائی کا طریقۂ کار انگریز سرکار ہی کے بناۓ ہوۓ ڈھانچے پر پوری طرح قائم رہا،۱۹۳۵ء کا آئین چند ترامیم کے بعد آئینِ پاکستان بن گیا، ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا بھی انگریزوں ہی کی تقلید میں قائم رہے، اور اسی طرح مجسٹریٹ کی عدالت اور سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کا نظام بھی ۔ ویسا ہی کمشنری نظام، وہی چوکیاں اور تھانے۔  وہی نیم فوجی اداروں کی تنظیم و ترتیب اور وہی رائل انڈین آرمی کی نقل پاکستان آرمی۔ اسی طرح اقتدار اور دولت لوٹنے میں انگریز کے مقلد، یہ ذیلی حکمران ملک کے اعلیٰ حکمران بن کر سامنے آگئے۔ صاف الفاظ میں کہا جاۓ تو مال و جاہ کی بھوک مٹانے کے لیے قوم کو انگریز کے ہاں گروی رکھنے والوں کا اختیار اب لا محدود ہو گیا۔
اس کے بعد اس ملک میں کیا ہوا؟اور کس طرح انگریز کے چھوڑے ہوۓ نظام نے حکمرانوں کی خواہشات کو تسکین فراہم کی؟ اور کیسے عوام ایک غلامی سے دوسری غلامی میں منتقل ہوۓ؟ اس کا حال بتانے کے لیے ایک طرف سرے محل، سوئٹزر لینڈ کے بینک اکاؤنٹ، رائیونڈ کی کوٹھیاں، سٹیل ملیں،بڑی بڑی جاگیریں، زرعی فارم، لگژری گاڑیاں،مہنگی ترین بیرونی یونیورسٹیوں میں بچوں کی تعلیم وغیرہ ہیں اور دوسری طرف بجلی اور گیس سے محرومی، روٹی کپڑا اور مکان کی آس، مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام کی چیخیں، مخدوموں اور وڈیروں کے رقبوں میں جانور بندھے سکول۔ ملک میں خوش ہیں تو صرف حکمران یا ان کے ماضی کی پیروی کرتے ہوۓ ان کے کوٹے پر پلنے والے وہ خوشامدی، جو ہر بار الیکشن کے موقع پر حکمرانوں کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلاتے ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ عوام  کوئی نجات دہندہ ڈھونڈھ رہے ہیں۔ یہاں ان کی راہنمائی کے لیے صرف اتنا عرض ہے کہ ساٹھ سال سے زائد کا تجربہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ شکلوں کا بدل دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بلکہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ انگریز سے ورثے میں ملے پورے نظام اور اس کے اوپر پلنے والی تمام تر نسل کو اٹھا باہر کیا جاۓ اور اپنے لیے وہی نظام اختیار کیا جاۓ جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ اور آخری بات یہ کہ اسی انگریزی نظام سے تربیت یافتہ اور اسی کی حقانیت پر یقین رکھنے والے افراد ہرگز ایسی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ 

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔