Sunday, September 30, 2012

اقتدار کے پجاری، کفر کے حواری، منافق چہرے!


تحریر: عبد الرحمن مجاہد
آفتابِ نبوّتﷺ کی توہین پر مبنی فلم نے ہر صاحبِ ایمان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ پورا عالمِ اسلام سراپا احتجاج ہے، نہتے مسلمان جا بجا اس امریکہ کو للکار رہے ہیں جس کی ٹیکنالوجی کا دبدبہ کمزور دلوں کو دہلا دیا کرتا تھا۔ کہیں امریکی سفیر مسلمانوں کے جوتوں کی نوک پر دم توڑتا نظر آرہا ہے اور کہیں کٹھ پتلی حکمرانوں کے لیے عبادت خانوں کی حیثیت رکھنے والے امریکی سفارت خانے آگ کی نظر ہو رہے ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر اِن قیصری محلّات پر جابجا القاعدہ و طالبان کے کلمے والے جہادی پرچم عام مسلمانوں کے ہاتھوں لہراۓ جا رہے ہیں۔ آسمان الجہاد الجہاد کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حبِّ نبیﷺ نے امّت کو نجات کا رستہ دکھا دیا، شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی بات امّت کے قلب و ذہن میں اتر گئی، امیر المؤمنین ملّا محمد عمر حفظہ اللہ کا امریکہ کے خلاف جہاد امّت نے تسلیم کر لیا، شیخ ابو مصعب زرقاوی، شیخ انور عولقی، ملا داد اللہ، ملّا عبیدا للہ، شیخ مصطفیٰ، شیخ عطیۃ اللہ، شیخ ابو یحیٰ، بیت اللہ مسعود(رحمہم اللہ) وغیرھم کی آوازیں ان کی شہادت کے بعد امّت میں اپنی جگہ پا گئیں،  افغانستان و وزیرستان کے شہداء کی قربانی بار آور ہوئی، عراق کے فدائیوں کی قربانیوں کا صلہ مل گیا اور پہاڑوں و ریگزاروں میں عالمی صلیبی صہیونی فساد کے خلاف برسرِ پیکار متوکّل مجاہدین کی دعائیں قبول ہو گئیں۔ آج امریکہ کے خلاف جہاد کوئی تنظیم نہیں بلکہ امّتِ مسلمہ کر رہی ہے، امریکی دجّالیت اور انتہا پسندی و دہشت گردی جیسی اصطلاحات کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔ اب ہر ہر مسلمان مجاہدین کا پشتیبان ہے۔ ان شاء اللہ اب وہ وقت دور نہیں جب نبی آخر الزمانﷺ کے خاکے بنانے والوں کی خاک بھی نہ ملے گی۔

عرب انقلابات سے لے کر توہینِ نبوّتﷺ تک حالات کے اس تسلسل نے جہاں بہت سی امیدیں باندھیں وہیں بہت سے اسباق بھی پیچھے چھوڑے۔ بالخصوص مسلمانانِ پاکستان کے لیے تو ان واقعات میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کراچی میں امریکی سفارتی دفاتر تک پہنچنے کے لیے گذشتہ دو دنوں میں جتنی تگ و دو کی گئی اس سے بہت کم کوشش اور بہت کم افراد نے لیبیا میں امریکی سفیر کو سفارت خانے سے باہر گھسیٹ نکالا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ کس طرح ذلت کی موت مرا۔ اسی طرح یمن، سوڈان، تیونس اور مصر میں بھی پاکستان سے بہت کم تعداد میں لوگ امریکی سفارت خانوں تک پہنچ گئے اور ان کو جلا ڈالا۔ ان ملکوں میں سے کسی کی حکومت بھی عوام کو امریکی عمارتوں سے نہ روک پائی۔ اس کی وجہ یقیناً ان ممالک میں مدتوں سے قائم امریکہ نواز نظاموں کا گرنا ہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا نظام ابھی تک پوری طرح امریکی اشاروں ہی کا پابند ہے۔ گذشتہ عرصے سے صرفِ نظر کرتے ہوۓ انہی چند دنوں کا جائزہ لیں تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور جرنیلوں کا معبود دراصل ان کا اقتدار ہے، یہ طبقہ اسلام کی بجاۓ کفر کا وفادار ہے اور ان کا ہر ہر فعل منافقت سے پُر ہے! جس میں امّتِ مسلمہ کے لیے کوئی خیر نہیں۔ بلکہ اگر ہم بحیثیت مسلمان فخر و عزت سے جینا چاہتے ہیں اور امریکہ و اسرائیل جیسے گستاخانِ نبوّت اور قاتلینِ امّت مسلمہ کے سامنے صف آرا ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اس طبقے اور اس کے قائم کردہ فاسد و کفریہ نظام کو گرانا ہوگا۔ ورنہ یہ اسی طرح ہمیشہ کفر کے دفاع میں صفِ اوّل قائم کرتے نظر آئیں گے۔  
ذرا دیکھیے تو سہی امریکی پادری نے پہلی بار نہیں تیسری چوتھی بار ہمارے نبیﷺ کی توہین کر ڈالی اور یہاں کی وزیرِ خارجہ امریکی دربار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں ہدایات وصول کر رہی ہے۔ مظاہرے اپنے عروج پر پہنچ گئے، پاکستان میں مسلمان امریکہ کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور یہ محترمہ وہاں سے بائیکاٹ کر کے واپس کیا آکر کہتی ہیں کہ ‘‘یہ ایک فرد کا فعل ہے، امریکی حکومت کا اس سے تعلق نہیں اور ہمارے لیے امریکہ بہت اہم ہے’’۔ یہ محترمہ ذرا امّت کو سمجھا تو دیں کہ کس طرح اس میں امریکی حکومت بے قصور ٹھہرتی ہے؟
دوسری طرف بی بی کے حصّے کی حکومت امریکہ سے بھیک میں حاصل کرنے والےصدر صاحب ملک میں امریکی نمائندوں کو استقبالیہ دے رہے ہیں۔ یہاں بھی موضوع گستاخوں کو سزا دلوانا نہیں بلکہ خطے کے حالات، یعنی امریکی مفادات ہیں۔
لوگوں کو کنفیوز کرنے کے لیے قائم کیاگیامیڈیا ایک طرف شانِ رسالت پر پروگرام نشر کر رہا ہے، اینکر پرسنز  اسی عنوان پر پروگرام کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکی سفارت خانے کے اشتہارات نشر کیے جارہے ہیں تاکہ امریکہ کے خلاف عوامی جذبات ٹھنڈے کیے جا سکیں۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ معاشرے کا کمال!
سپہ سالار کیانی صاحب کو دیکھیں تو وہ یومِ عشقِ رسول جنوبی وزیرستان میں منا رہے ہیں۔ تمام مسلمان امریکہ کے خلاف کھڑے ہیں اور یہ امریکہ کی خاطر نہتے قبائلی مسلمانوں کے خلاف دادِ شجاعت دے رہا ہے۔ اُسے اِس دن بھی مسلمانوں کے خلاف عالمی امریکی جنگ کی فکر کھاۓ جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پورا  ابلاغاتی ادارہ چلانے والی پاک فوج اور اس کے چیف نے ایک بیان بھی توہینِ نبوّت کے بارے میں نہیں دیا۔ کیونکہ یہ فوج کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دائرہ سے باہر کا معاملہ ہے۔
پولیس نے تو جیسی وفاداری اپنے پیشے اور تنخواہوں سے نبھائی اس کی مثال کم ہے۔ وہائٹ ہاؤس بھی اس کی کارکردگی پر حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ اتنے جوان خون میں نہا گئے لیکن مجال ہے کہ مظاہرین میں سے کوئی امریکی سفارت خانے پہنچ پاۓ۔ کتنے لوگ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے اس کی پراواہ نہیں شیطان ملک کے آرڈر تو پورے ہو گئے۔
پہلے وزیرِ پانی و بجلی کے عہدے پر ملک کو لوٹنے اور اب وزیرِ اعظم کے عہدے پر دونوں ہاتھوں سے کمائی کرنے والے وزیرِ اعظم کو دیکھیے، پاکستان کے عوام کے ردّ عمل کو دیکھتے ہوۓ کیسے رنگ بدلا اور یومِ عشقِ رسولﷺ منانے کا اعلان کر دیا۔ لیکن نہ تو اسلام کے خلاف امریکی جنگ سے ہاتھ کھینچا اور نہ ہی سپلائی بند ہوئی، نہ سفارت خانے بند ہوۓ اور نہ ہی سفارت تعلقات منقطع۔ ملکی املاک کا بے تحاشہ نقصان تو برداشت کر لیا لیکن امریکی تنصیبات کی حفاظت میں کوتاہی نہ برتی۔  نبیﷺ کی شان میں پتہ نہیں کس سے تقریر لکھوا کر چند درباری مّلاؤں کے سامنے پڑھ تو دی لیکن نبیﷺ کے نام کے بعد درود ایسے نکل رہا تھا جیسے شیطان ملک نے سورہ اخلاص پڑھی تھی۔ ان سے سوال یہ ہے کہ یہ اور ان کی پارٹی عوام کے ساتھ سڑکوں پر کیوں نہ نکلی؟ بی بی کے قتل پر تو پورا پاکستان جلا ڈالنے نکل کھڑے ہوۓ تھے۔
باقی سیاسی پارٹیوں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ ان میں سے بھی اگر کوئی اقتدار میں ہوتی تو یہی کرتی جو زرداری کی پارٹی نے کیا۔ نہ نواز لیگ چیف جسٹس کے لانگ مارچ کی طرح گھر سے نکلا اور نہ ہی عمران خان سونامی کی قیادت کرتا ہوا آیا۔ امریکہ کا بائیکاٹ اور اس کے دَر کی گداگری نہ یہ پارٹیاں چھوڑ سکتی ہیں اور نہ ہی فوج۔ اگر امریکہ کچھ دینے کے قابل نہ رہا یا دینے سے انکاری ہو گیا تو یہ لوگ کوئی اور دَر ڈھونڈیں گے لیکن پیشہ نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ان کا جنم ہی ایسے ہوا ہے۔ رہا اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ تو اس سے نہ انہیں کوئی سروکار پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ اسلام کے لیے پہلے بھی خاک نشینوں کی قربانیاں کام آئیں اور اب بھی خاک نشین مجاہدین ہی سینہ سپر ہیں۔ امریکہ کو عراق سے بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مجاہدین نے بھگایا، افغانستان میں بھی وہ مجاہدین ہی سے مار کھا رہا ہے اور پاکستان سے بھی مجاہدین ہی کی کارروائیوں سے بھاگے گا۔ ہمیں بھی اگر عزّت پانی ہے، نبیﷺ کی حرمت کا دفاع کرنا ہے تو ہجرت و جہاد کا رستہ اپنانا ہو گا۔ چہروں کو نہیں نظام کو بدلنا ہوگا۔ جمہوریت کی جگہ شریعت کو حاکم بنانا ہوگا۔

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔