زیر نظر اقتباس ، امت کے ایک عظیم مجاہد، داعی اور شہید ،شیخ
انور العولقی رحمہ اللہ کے آڈیو بیان بعنوان The Dust will Never Settle Down سے لی گئی ہیں۔ جو انھوں نے ڈنمارک میں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے کارٹون بنانے کےشرمناک واقعے پر دیاتھا ۔ انٹرنیٹ پر یہ بیان آسانی سے دستیاب ہے۔ آج امریکہ
و یورپ کی طرف توہین رسالت کا مسئلہ ختم نہیں ہوا، بالکل وقت کے ساتھ اس
میں اضافہ ہوا ہے،اور گزرتے وقت کے ساتھ اس معاملے پر مغرب کا عالمی امن،محبت و
بھائی چارہ کافلسفہ ، اور بقائے باہمی کے
تحت ہونے والی کوششوں مزیدنکھر کر سامنے
آرہی ہے۔ اب بھی کوئی مغرب سے 'مکالمے (منہ کالا)'جیسے فلسفے کو بیان کرے تو اُسے
ایک دفعہ اپنے ایمان کے متعلق ضرور سوچنا چاہیے۔ درج ذیل سطروں میں توہین رسالت ﷺ کے اہم مسئلے پر علمائے اُمت کو اپنے ذمہ داری بھرپور انداز
میں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ مصالحت اور حق بات کہنے سے محروم علما کو بھی اپنی استطاعت کے مطابق آگے بڑھنے
کے لیے کہا گیا ہے۔
اِن سادہ مسلمانوں کے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے معمور
ہیں۔ یہ محبت اُن کی فطرت کا حصہ ہے ! وہ کوئی عالم نہیں ہیں بلکہ بس سادہ مسلمان
ہیں، جنہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور یہی محبت انہیں احتجاج کے
لیے کھینچ لائی۔ ممکن ہے ہم ان جلوسوں سے اتفاق کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، اس کے
فوائد اور نقصانات پر بات ایک الگ بحث ہے۔ لیکن اصل چیز جو دیکھنی چاہیے وہ جذبہ
ہے جس کے تحت یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ ان
مسلمانوں کی فطری محبت کا تقاضاہے، اسی لیے انہوں نے پرچم وغیرہ نذرآتش کیے۔ ان
حالات میں علما نے عوام کے سامنے اُن کی اصل ذمہ داری اور شرعی حکم واضح نہیں کیا۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے کہ : لتبیننہ للناس و لا تکتمونہ۔ علما کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے احکام
چھپانے کے بجائے ان کو کھول کر بیان کریں۔ اس کے برعکس انہوں نے لوگوں کو مزید
اُلجھن میں ڈال دیا اور بجائے اس کے وہ عوام کو اللہ کے حکم سے آگاہ کرتے ، انہیں
نے جلسے جلسوں کی مذمت شروع کردی، جھنڈے جلانے پر اُن کی مذمت کی، سڑکوں پر نکل
آنے پر اُن کی مذمت کی، اور کچھ علما تو اِس حد تک بھی بڑھ گئے کہ ڈینش مصنوعات کے
بائیکاٹ کی بھی مذمت کردی اور کہنے لگے کہ
" یہ ہمارے اور اُن کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنے میں مزاحم ہے اور ہمیں
چاہیے کہ اپنے اختلافات مٹا کر ایک دوسرے کے قریب آجائیں۔"
ان سارے بیانات میں اللہ تعالیٰ کے حُکم کا کیا بنا؟ آخر اس
کے حوالے سے بات کیوں نہیں کی گئی اور اس کو کیوں نہیں واضح کیا گیا؟ اگر آپ حق
بات نہیں کرسکتے تو کم از کم خاموش رہنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: من کان یومن باللہ و الیوم الآخر فلیقل خیرا او لیصمت: جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہواُسے چاہیے کہ
بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔" (صحیح بخاری و مسلم)
آج جو لوگ علم کی دستارپہن کر لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں
اور ان کے افعال کی مذمت کررہے ہیں کہ ایسا مت کرو۔ لوگوں نے بھی کیا کیا؟ گھروں
سے احتجاج کے لیے نکلے اور ڈینش مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ حالانکہ یہ طریقہ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے بجائے گاندھی کے پیروکاروں کے لیے زیادہ موزوں
ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ ہیں جنہوں نے فرمایا تھا: انا نبی المرحمہ وانا نبی الملحمہ۔ میں رحمت کا نبی ہوں اور میں جنگ کا نبی ہوں (بیہقی،
ترمذی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا: بعثت بالسیف بین یدی الساعہ حتی یعبد اللہ وحدہ۔ "مجھے قیامت کے دن تک کے لیے تلوار کے ساتھ بھیجا
گیا ہے یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کی جائے "۔(مسند احمد) اور
فرمایا: امرت ان اقاتل الناس: "مجھے لوگوں سے
قتال کا حکم دیا گیا ہے"۔(بخاری و مسلم) اور ایک مرتبہ قریش کے لوگوں سے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جتکم بذبع :"میں تمہارے پاس ذبح
کا حکم لے کر آیا ہوں"۔(مسند احمد) ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار
ہیں اور اُمتی ہیں گاندھی کے نہیں!!! ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ ہم کون ہیں؟ اور ہم کس کی بات کررہے ہیں۔
یہاں معاملہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ یہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی توہین کا معاملہ ہے۔
آڈیو بیان اور اس کا متن ، اس ربط پر موجود ہے۔
http://www.kalamullah.com/anwar-alawlaki.html
0 comments:
Post a Comment
اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں
اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔