Wednesday, July 18, 2012

رمضان المبارک: کرنے کے کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ؛                                                                                                    
تمام حمد و ثنا اس اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور درودو سلام ہو، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی با برکت ہستی پر جنہوں نے ظلم و جہالت کے گھٹا توپ اندھیروں میں ڈوبی دنیا کو نورِ حق سے روشناس کروایا۔
رمضان المبارک۔۔۔ ہمارے اورآپ کے لیے، اپنی انفردی اصلاح کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ چنانچہ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق سے نوازے(آمین)۔
تجدید نیت: سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنی نیت خالص کریں۔ اور اللہ تعالی کے حضور یہ عہد باندھیں کہ صرف رمضان ہی نہیں بلکہ بقیہ سال بھر میں بھی اللہ کی اطاعت سے انحراف نہیں کریں گے۔ رمضان شروع ہونے سے پہلے نیت نہیں کرسکے کوئی بات نہیں، اس وقت ایمان واحتساب کے ساتھ بقیہ دن گزارنے کی نیت کر لینی چاہیے۔
تزکیۂ نفس کا درست اسلوب: تزکیہ ٔ نفس کا صحیح اسلوب وہی ہے جو آں حضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔ کیونکہ دین کی تکمیل ہوچکی ہے اور اتباع سنت نبویﷺ میں تمام تر فلاح پوشید ہ ہے۔
اپنی چارچ شیٹ تیار کیجئے: اللہ تعالیٰ تو بہت علیم وبصیر ہے۔ وہ ہر کھلے اور چھپے راز سے واقف ہے ، تاہم دنیا میں انسان کا سب سے بڑا محرم خودا س کی اپنی ذات ہے۔

 
 بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ۔ لہٰذا اپنی خامیوں کی فہرست تیارکریں اور عزم مصمم کریں کہ ان شاءاللہ اسی رمضان کے اندر ان سے چھٹکارا پانا ہے۔ کیونکہ انسان کو گناہ پر مائل کرنے والی دو چیزیں ہیں۔ ایک اُس کا نفس امارہ اور دوسرا شیطان رجیم…… اور احادیث میں تصریح ہے کہ رمضان میں شیاطین جکٹر  دئیے جاتے ہیں لہٰذا اب صرف نفس کی تحریص ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اسے بھی روزہ اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر قوت نہیں رہتی۔ لہٰذا گر آپ رمضان میں اپنی خامیوں کو دُور کرنا اور خوبیوں سے جان چھڑاسکے تو پھر کبھی نہیں چھڑا سکیں گے۔ الا ان یشاء اللہ۔  چنانچہ ابھی سے عزم کریں کہ میں نے اپنی خامیوں کو دور کرنا اور خوبیوں کو مزید بڑھانا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص غیبت جیسی قبیح عادت میں مبتلا ہے تو اس کے لیے سنہر ی موقع ہے کہ وہ اپنی زبان قابو کرسکے۔ یادر ہے کہ غیبت کو مُردہ بھائی کو گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز اسے زنا سےبد تر ٹھہرایا گیا ہے۔ لہذا غیبت کرنے والا فرد اس گناہ کے گھنانے پن کا تصور کرکے اس کو چھوڑنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
ہم غیبت کیوں کرتے ہیں؟بالعموم محض اپنی زبان کا چسکا پورا کرنے کے لیے…… یا یوں سمجھ لیں کہ……غیبت دراصل زبان کی شہوت ہے۔ بسا اوقات غیر ضروری اور لایعنی گفتگو کرتے رہنے کی عادت بھی غیبت میں ڈھل جاتی ہے۔ کیونکہ موضوع گفتگو تو بہرحال چلتے ہیں رہنا چاہیے!!!
                بہتر یہ ہے کہ ہم رمضان میں اپنی یہ عادت بنائیں کہ کوئی لایعنی بات زبان سے نہیں نکا لنی دوسرے لفظوں میں ہمیں تقلیل  کلام کو اپنانا ہوگا۔ غیبت ، دوسرے مسلمان کی غیر موجودگی میں اس کا ایسا ذکر ہے جو اگر اس کا سامنے کیا جائے تو اس کو بُرا لگے……غیبت سے بچنے کا ایک طریقہ خرم مراد صاحب نے لکھا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر نہ کیا جائے…… نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری۔۔ آزمائش شرط ہے۔
                غیبت تو خیر بڑا گناہ ہے۔ ہمیں تو بحیثیت مسلمان ، آفات اللسان کی ہر شکل سے خود کا بچانا چاہیے۔ چنانچہ اس کو بہترین طریقہ یہی ہے کہ کم از کم…… رمضان کی حد تک…… تو یہ طے کر ہی لیں…… کہ کم سے کم گفتگو کرنی ہےاور ایسی کوئی بات زبان سے نہیں باہر نکلنی جو آخرت کی  میزان میں حسنات کے پلڑے میں نہ ڈالی جاسکے۔غیبت ہی طر ح ایک دوسری خطرناک بیماری جس کی طرٖف آج کل کے معاشرے میں بہت کم دھیان دیا جاتا ہے ، وہ ہے…… بدنظری……اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس بری بَلا سے بچائے۔ ‘بد نظری’ چاہے دانستہ ہورہی ہو یا نادانستہ طور پر…… بہر حال بسا اوقات نیک لوگ  بھی یا یو ں کہہ لیں کہ بظاہر متشرع وضع رکھنے والے بھی اس روگ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
                اس سے بچنے کا حقیقی نسخہ تو یہی ہے کہ آدمی محض اتنا تصور کرلے کہ…… جب میں بدنظری کے گناہ سے اپنی آنکھیں گندی کر رہاہوں…… تو کیا آخرت میں انہی آنکھوں سے دیدارِ الہٰی سے مشرف ہو سکوں گا…… سبحان اللہ! کہاں یہ فانی حُسن اور کہاں جمال الہٰی!
                یہ بات تو شاید آپ نے کہیں پڑھی ہوگی کہ محرمات کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرنے کو عبادت میں حلاوت نصیب ہوتی ہے۔ کاش لوگ نگاہوں کی چوری کرتے ہوئے اتنا سوچ لیں کہ وہ اپنے والدین کے سامنے ایسی حرکت کرسکتے ہیں؟ اور یقیناً کوئی حیادار آدمی ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔۔ تو پھر اُس رب کریم سے حیا کیوں نہیں آتی؟ بہت ‘بدنظری’ سے بچا جاسکتا ہے، بازاروں میں اپنی آمدورفت کم سے کم کرکے اور غیر محرموں (ہر قسم کے)کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کرکے۔
                کوشش کریں کہ اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اوقات مسجد میں گزاریں یا پھر (بزرگ) صالحین کی صحبت میں ۔ بلکہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ چونکہ رمضان ، شھر رمضا ن ہے۔ لہٰذا اِسے قرآن مجید ہی کی معیت میں گزارا جائے۔
                یاد رکھیں۔ اس وقت دنیا میں…… دین حق پر حقیقتا عمل کرنے والے آٹے میں نمک کے بر ابر ہیں اور حقیقی اہل ایمان غربا ہوچکے ہیں ان میں سے بھی اغرب الغرباء وہ ہیں جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر راہِ جہاد میں گامز ن ہیں…… اور ہم یہی چاہ رہے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اُسی طا ئفہ منصورہ میں سے ہوجائے۔ بنا بریں ہمارے لیے اشد ضروری ہے کہ اپنے شب و روز ، قرآن کے سائے میں گزاریں۔
                ہر مسلمان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس لیے رمضان المبارک میں ہم اپنے معمولات کو بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایک ایسا مہینہ جب نوافل، فرض کے درجے میں اور فرائض کا اجر ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے تو پھر کون بد نصیب ہے جو رحمت باری سے محروم رہنا چاہے گا۔
یہ نصیب اللہ اکبر! لُوٹنے کی جائے ہے
چنانچہ دن بھر کے معمولات کا شیڈول بنا کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ تفصیلی منصوبہ بندی تو ہر ساتھی اپنے حالات کی مناسبت سے کر سکتا ہے لیکن ایک سر سری خاکہ پیش خدمت ہے۔
قیام اللیل: رمضان میں قیام اللیل ، عام دنوں سے زیادہ آسان بھی ہے اور فضیلت والا بھی۔ اگر کوئی ساتھی ہمت پاتا ہوتو رات کا تیسرا پہر۔۔ افضل وقت ہے۔ لیکن کم از کم اتنا تو ہونا چاہے کہ سحری سے کچھ دیر پہلے اٹھ کر آٹھ نوافل ادا کرلیے جائیں اور ساتھ تین وتر ملا لیں۔ قیام اللیل میں قرآن کی تلاوت کا لطف تو وہی جانتے ہیں جنہیں یہ سعادت نصیب ہوتی ہے۔ ۔۔ جتنی سورتیں زبانی یاد ہیں پڑھ ڈالیے۔ اور اگر مصحف ہاتھ میں لے کر بھی پڑھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جتنا پڑھیں ، تدبر کے ساتھ اور اس احسا س کے ساتھ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے شرف ِ ہمکلامی نصیب ہو رہاہے۔ کیا خبر کہ اس عمل کی برکت سے ہم بھی "وبا لا سحار ھم یستغفرون" والوں کی فہر ست میں شا مل ہوجائیں۔
                لیکن قیام اللیل …… پر عامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد بلا تاخیر سوجائیں۔ اگرچہ عام دنوں میں ہم عشاء کے بعد بھی تادیر جاگنے کے عادی ہیں۔ لیکن، خدارا…… کم از کم رمضان میں ہی اس "خلاف سنت" عادت کو ترک کر دیا جائے۔ اور اس طرح فجر کے بعد سونے کی عادت کو بھی جبراً چھوڑدیا جائے…… اور آرام کرنا ضروری ہو بھی تو۔۔۔ اشرا ق کے نوافل پڑھنے کے بعد کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔
اذکار مسنونہ: نماز فجر کے بعد فوراً اٹھ جانے کی بجائے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے صبح و شام کے مسنون اذکار کا ورد کیا جائے۔ اس حوالے سے "حصن المسلم" میں موجود اذکار کی ترتیب مفید پائی گئی ہے۔
                صبح کے اذکار کا وقت سورج نکلنے سے پہلے تک اور شام کے اذکار عصر کی نماز کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک مسنون ہے۔ اذکار مسنونہ کا ورد اپنی عادت بنالیں۔ نیز رمضان چونکہ شھر قرآن ہے لہذا کم از کم ایک پارے کی تلاوت ضرور کریں۔ ہوسکتا ہے کہ آغاز میں طبیعت کو آمادہ کرنے میں دشواری پیش آئے لیکن یاد رکھیں کہ 'اب نہیں تو کبھی نہیں'
سنن رواتب: سورج طلوع ہونے کے بعد……کم از کم …… دو رکعت…… اشراق کے نوافل ادا کریں۔ اس طرح کوشش کریں کہ وہ سنتیں جنہیں چھوٹے ایک مدت گزر گئی ہے ، انہیں از سر نو زندہ کیا جائے، مثلاً تحیتہ الوضو، تحیتہ المسجد اور نماز عصر کی چار سنتیں۔
((نوٹ: نماز عصر کی چار سنتوں کے حوالے سے ایک بہت خوب صورت حدیث نظرسےگزری ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رحم اللہ امراء صلی قبل العصراربعاء۔ اسی روایت کو ابو داؤد اور ترمذی نے حسن قر ار دیا ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے رحم کی دعا کی ہے جو عصر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرتاہے۔ آپ خود انداز کرسکتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی فرد کے لیے دعا کر رہے ہیں تو وہ ردّ کیسے ہوسکتی ہے)۔
ذکر الہٰی: ہماری سابقہ تربیت  میں چونکہ ایک فرد میں خود اعتمادی پیدا کرنے پر بہت زور دیا جاتا رہا ہے لہٰذا اس کے اثرات یہ ہوئے ہیں کہ دنیا بھر کے موضوعات پر بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں…… تقلیل کلام کے ذریعے اس چیز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن تقلیل کلام سے مقصود یہ نہیں کہ زبان پر تالہ لگا کر بیٹھ جائیں۔ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہماری زبان…… ہمہ وقت، ذکر الہٰی سے تر رہے۔ جتنی مسنون دعائیں منقول ہیں ان کا ورد اٹھتے بیٹھتے  جاری رکھیں…… ممکن ہے شروع میں تصنع کا خیا ل آئے ، لیکن اس وسوسۂ شیطانی کو دل سے جھٹک کر اپنا معمول جاری رکھیں۔ اگر کچھ تصنع ہوا بھی تو ان شاء اللہ خود بخور دُھل جائے گا۔ البتہ یہ بات دھیان میں رہے کہ جہراً ذکر سےسرّا ذکر  بہتر ہے۔
سورۂ کہف  کی تلاوت: جمعتہ المبارک کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں۔
مطالعۂ سیر ت النبی صلی اللہ علیہ وسلم: آغاز میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ تزکیۂ نفس کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہےکہ اپنے انفردی اور اجتماعی اعمال۔۔۔ سیر ت نبویﷺ کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ لہٰذا اسی غرض کے لیے کتب سیرت مثلاً زاد المعاد کا مطالعہ شروع کریں۔
محاسبۂ نفس: حاسبو انفسکم قبل ان تحاسبوا۔ روزانہ سونے سے پہلے ، کچھ دیر کے لیے اپنے دن بھر کے معمولات کا محاسبہ کریں۔
کثرتِ دعا: ان سارے معمولات کے باوجود ، قبولیت اخلاص سے مشروط ہے، لہٰذا اخلاص کی دعا ضرورکریں۔
                ہم اپنی تمام حاجات میں اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں۔ ان مبارک ساعتوں میں بار بار اس کا در کھٹکھٹائیں۔ بالخصوص رات کے پچھلے پہر  اور بوقت افطار کی جانے والی دعائیں مقبو ل ہوں گی۔ (ان شاء اللہ)
                اللہ تعالیٰ سے اپنی، اپنے والدین، عزیزو اقارب اور امت مسلمہ کے لیے عفو و عافیت کا سوال کریں۔ سعادت مندی کی زندگی اور شہادت کی موت طلب کریں۔ مجاہدین اسلام کی نصر ت و کامیابی کے لیے خصوصی دعائیں کریں۔ یہ بھی اُن کی مدد ہے۔ قنوت نازلہ پڑھیں اور بالخصوص اپنے قیدی بھائیوں کی نجات کے لیے الحاح و زاری سے دعائیں مانگیں۔ قیدیوں کو چھڑانے میں تساہل کرکے ہم بحیثیت مجموعی جس گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں اُس پر رورو کے حضور معذرت پیش کریں۔ مجاہدین کی قیادت کے حق میں صبر و استقامت کی دُعا کریں۔ اُمت مسلمہ کے سروں پر مسلط غاصب کفار اور طواغت کی ہلاکت و بر بادی کی دعا کریں۔
انفاق فی سبیل اللہ: مجاہدین فی سبیل اللہ ۔۔۔ کے لیے اپنی ذاتی جیب سے "نصرت فنڈ" قائم کریں۔ اس سلسلے میں ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہےکہ اپنے کمرے میں ایک Money Box رکھ لیں اور روزانہ اِس میں کچھ نہ کچھ ڈالتے رہیں۔ اسی طرح دیگر ساتھیوں اور اہل خیر کو بھی 'انفاق فی سبیل اللہ' پر ابھاریں۔ موسم سرما کی آمد آمد ہے اور محاذوں پر موجود مجاہدین بھائیوں تک ضروری سامان پہنچانا ہمارا فرض ہے۔
ترک تعیش: راہِ جہاد۔۔۔اور ۔۔۔ تعیش میں باہم ضد واقع ہوئی ہے۔ عیش کوشی اور سہولیات کے عادی افراد۔۔۔ راہ جہاد کے مسافر نہیں بن سکتے۔ وہاں تو ایسے لوگ درکار ہیں جو رھبان باللیل اور فرسان بالنھار ہوں۔
                چنانچہ رمضان کو غنیمت جان کر اپنی زندگی میں سے ان چیزوں کو آہستہ آہستہ خارج کرتے جائیں جو اگرچہ مباح ہی کیوں نہ ہوں لیکن ان سے آرام طلبی اور عیش پسندی کی بُوآتی ہو۔
                اس حوالے سے دو حدیثیں یادرکھیں۔
کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل
دنیا میں اس طرح رہو گویا تم پر دیسی ہو یا مسافر
اور
الدنیا سجن المومن و جنتہ الکافر
دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت
آخری عشر ے میں اعتکاف: آخری عشرے میں اعتکاف کی کوشش کریں۔ وگرنہ کم ازکم طاق راتیں ضرور قیام اللیل میں گزاریں۔
نصاب برائے حفظ: رمضان کے اندر۔۔۔ قرآن مجید کی بعض سورتیں جو بھول چکی ہوں از سرِ نو یاد کرنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ کا بے پایاں فضل و کرم ہے کہ اُس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع عنایت فرما دیا۔ چنانچہ اس کے لیے ایک ایک لمحے کو غنیمت جان کر عبادت الہٰی میں وقف ہوجائیں۔
                افطاری کے وقت بہت زیادہ کھانے سے پرہیز کریں۔ نفس تو یہ چاہے گا کہ پورا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بدلے چٹخارے دار کھانے ملیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں یا قابو کرلیتے ہیں۔
                افطار کے وقت ۔۔۔ انواع و اقسام کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے وقت۔۔۔ گوانتانامو کے پنجروں میں قید اپنے بھائیوں کو ضرور یاد رکھیے گا۔۔۔ اور اگر اُن کی یا د سے آپ کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔ تو امید رکھیں کہ ان شاء اللہ ہمارے لیے راہ جہاد میں نکلنا آسان ہوجائے گا۔

0 comments:

Post a Comment

اپنے تبصروں سے اس بلاگ کو بہتر بنا سکتے ہیں

اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تو آپ ذیل میں بنے باکس میں اپنا تبصرہ تحریر کریں اور پھر اسے یہاں سے کاپی کرکے نیچے کمنٹ ( تبصرہ ) باکس میں پیسٹ کریں اور اس کے بعد شائع کردیں۔براہ مہربانی تبصرہ اردو میں ہی کرنے کی کوشش کریں۔