تحریر: عبد اللہ حفیظ
لڑکی! تمہارا خواب کیا ہے؟
تمہارا مستقبل روشن ہے
یہ تو تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے
یا یہ کہ تمہاری آواز دبا دی گئی ہے؟
اس دنیا میں انصاف نہیں ہے
لیکن کوشش جاری ہے
ہم مل کر کچھ کر سکتے ہیں
ہم آزاد اور بے خوف ہیں
لڑکیو! لڑکیو! امید رکھو
لڑکیو! عنقریب تبدیلی آۓ گی
یہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر موجود ایک ویڈیو گانے کے الفاظ ہیں۔ ویڈیو میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے ایک امریکی عورت معصوم پاکستانی بچیوں کو لیے ایک پاکستانی ستار نواز کے ساتھ یہ گانا گا رہی ہے۔ گانے کی مقصدیت اس کے الفاظ سے واضح ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اسلام کے خلاف کثیر جہتی صلیبی جنگ چھیڑے ہوۓ ہیں۔ اس جنگ کے تحت جہاں ایک طرف افغانستان، عراق، یمن، صومالیہ، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی افواج کے حملے برس ہا برس سے جاری ہیں وہیں دوسری طرف ثقافتی، تعلیمی، معاشرتی سطح پر بھی اسلام کے تشخص کو بگاڑنے اور مسلم قلوب و اذہان میں مغربی اقدار کی فوقیت بٹھانے کے لیے بے شمار نرم طریقے اپناۓ جا رہے ہیں۔ اسلام کے دشمن یہ جانتے ہیں کہ اسلام کی ان میدانوں میں تعلیمات ایک مسلمان کو وہ مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں جس سےوہ کفر و الحاد کے سامنے نہتا سینہ سپر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جہاں دینی غیرت و حمیت کے حامل مجاہدین اور علماۓ ربّانی ان کی براہِ راست جنگ کا ہدف ہیں وہیں ساتھ ہی ساتھ وہ مسلم معاشرہ بھی ان کی بالواسطہ جنگ کی لپیٹ میں ہے جو دین کے دفاع میں کھلنے والے محاذوں کو افراد فراہم کرتا ہے۔ اس میں بھی زیادہ توجہ مسلمان عورتوں پر دی جا رہی ہیں کیونکہ ان کی شخصیت مستقبل کے مسلمان معاشرے کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
اسلام کے خلاف قلوب و اذہان کی جنگ میں مسلم دنیا میں کھلے امریکی و یورپی سفارت خانے کفر کے مضبوط ترین مورچے ہیں جو ترقی و تعاون کے نام سے اپنی سرگرمیوں کو مسلم معاشروں کے قلب تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانہ ان سرگرمیوں میں کافی پیش پیش نظر آتا ہے۔ ایک طرف یہ سفارت خانہ افغانستان و پاکستان میں جاری اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا علاقائی صدر دفتر بنا ہوا اور دوسری طرف پاکستان میں سیاسی، ابلاغاتی، تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کو بھی یہی سفارت خانہ براہِ راست کنٹرول کر رہا ہے۔
تعلیمی میدان میں دیکھا جاۓ تو نصاب کی مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کے پروگرام امریکی سرپرستی میں طے پا رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے یونیورسٹی آف ہزارہ، مانسہرہ میں ڈیڑھ ملین ڈالر کی لاگت سے فیکلٹی آف ایجوکیشن قائم کی۔ اگلے دو سالوں میں ۱۵ ملین ڈالر کی لاگت سے پاکستان بھر میں ایسی سات فیکلٹیز مزید قائم کی جائیں گی۔ اسی طرح پاکستانی نوجوانوں کے لیے امریکہ میں تعلیم کے لیے وظائف کا اجراء کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے فُل برائٹ سکالرشپ کے علاوہ یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام (YES)، نوجوانوں کے تبادلے اور مطالعاتی کینیڈی لوگر پروگرام کے تحت ہر سال سو لڑکوں اور
لڑکیوں کو ہائی سکول کی تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔ وظیفہ حاصل کرنے والے
طلباء میں لڑکیوں کا تناسب ۶۰ فیصد ہے اس کے علاوہ سندھ اور خیبر پختونخواہ سے
زیادہ امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں تا کہ یہ خطے بھی امریکی "جدّت پسندی"
سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والے راولپنڈی کے نوجوان عرفان طاہر نے کہا کہ اس پروگرام میں حصہ لینے کے بعد اس کا تصور تبدیل ہو گیا ہے۔” امریکہ میں رہنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ تمام امریکی پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں لیکن اب میں جانتا ہوں کہ وہ مخلص اور وفادار لوگ ہیں”۔ میرے خیال میں امریکی مہم براۓ تعلیم کے مقصد کو واضح کرنے کے لیے یہ جملہ کافی ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، فوجی افسران کی تربیت کے پروگرام اس کے علاوہ ہیں جس کے اثرات یہ ہیں کہ پوری ریاستی مشینری امریکی مفادات کے تحفظ میں صرف ہو رہی ہے۔